ڈونلڈ ٹرمپ شروع شروع میں امریکی صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئے تو دنیا بھر میںا نہیں پنڈت رتن ناتھ کے ناول منانۂ آزاد کے ایک کردار خواجہ یدلع الزماں یعنی خوجی کے طور پر لیا گیا۔ خوجی ایسا کردار تھا جو شیخی بگھارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا لیکن خود اپنے بڑے بول پر ہی عمل نہیں کر پاتا۔
خوجی کا استعارہ زبان زدعام نہ ہوا لیکن یہ کردار سولہویں صدی کے ہسپانوی ناول ’’ڈان کوٹیکسوٹ اور سانچو پانزا‘‘ کے کارناموں کی طرز پر لکھا گیا تھا۔ Don Quixote ناول کا ہیرو ہوتا ہے جو بڑ بولا اور مہم جو شخص ہوتا ہے اور اب کسی بھی فضول مہم جو شخص کیلئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے اردو ادب میں اس انگریزی لفظ کے مترادف بہت سارے کردار ہیں ان میں ’’حاجی بغلول‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ابنصفیکے ایک ناول کا مشہور کردار کرنل فریدی بھی ایسا ہوتا ہے کہ جو اپنی صلاحیت سے بڑھ کر کارنامہ سرانجام دینا چاہتا ہے۔ ان سارے کرداروں میں سے بہت سارے اپنے انجام کار پر پشمان ہوتے تھے کیونکہ وہ بڑے بول بھی بول دیتے تھے اور شیخی بگھار دیتے تھے مگر کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے تھے مگر اس ساری صورت حال کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے کارنامہ سر انجام دے دیا ہے۔ بقول مرتضے برلاس؎
جو غیر کی جگہ ہو خدا ہم پہ ملتفت
انصاف سے کہو، وہ کوئی وصف ہم میں ہے؟
مگر خدا ڈونلڈ ٹرمپ پر ملتفت نہ بھی ہوتا تو امریکہ کی قوم کے بہت سارے افراد کی نظر التفات ڈونلڈ پر تھی۔ امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ واحد سپر پاور ہونے کی خواہش میں اور دنیا کے مہلک ہتھیاروں پر دسترس ہونے کے باوجودجس چیز کی کمی محسوس ہو رہی تھی وہ یہ تھی کہ امریکہ کے اخلاقی افعال بہتر اور انسانیت دوست ہوں تاکہ جو ملک عالمی قیادت کیلئے خود کو اہل سمجھتا ہے وہ خود اخلاقی ضابطوں پر بھیپورا اترتا ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد دو طرح کے طبقے گفتگو کر رہے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو صدمے سے دو چار ہے کہ اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا کیا ہو گا اور یہ لوگ ہلیری کلنٹن کی شکست پر پریشان حیران بھی ہیں‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکی عوام کی نفسیات بھی ان کے سامنے کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ وہاں ایک خاتون کو بطور صدر دیکھنے کا ظرف لوگوں میں نہیں تھا اور پھر امریکی عوام کو ڈونلڈ ٹرمپ کے نسلی تعصب اور تنگ نظری پر مبنی خیالات سے کچھ زیادہ اختلاف نہیں محسوس ہو رہا تھا یا پھر امریکی عوام کوئی عجیب و غریب تجربہ کرنا چاہ رہے تھے۔ اس طبقہ سے ہٹ کر ایک اور طبقہ ایسا بھی ہے جو امریکہ کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو ’’مکافات عمل‘‘ کے طور پر دیکھ کر یہ کہہ رہا ہے کہ ہیلری آ جاتی تو حالات کچھ اور ہوتے مگر اب کیا ہو گا اس کے بارے میں کچھ کہنا دشوار ہے لہٰذا اس دشواری میں حالات کچھ بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ امریکہ کی افواج کی دوسرے ملکوں میں جارحیت کی شرح کسی بھی ملک سے زیادہ ہے اس میں جوہری بم کے استعمال کے علاوہ عراق اور افغانستان کی جنگ کے واقعات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اور تجزیہ بھی موجود ہیں کہ 1978ء سے 1987ء کے عشرے میں اقوام متحدہ کی ستر قراردادوں میں اوسطاً 134 ممالک کے خلاف واحد مزاحمتی ووٹ امریکہ نے دیا جبکہ 42 قراردادوں میں سے 40 مرتبہ مزاحمتی ووٹ دینے والا دوسرا ملک اسرائیل تھا۔ ان قراردادوں میں اکثریت مسئلہ فلسطین انسانی حقوق‘ ماحولیات اور عالمی انصاف کے ضابطوں پر مشتمل تھیں۔ شان الحق حقی نے اپنی کتاب ’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ اس امریکی مخالفت کی زد تیسری دنیا پر پڑی اور اس کا شکار بالعموم مسلمان ہی ہوئے۔‘‘اب ان حالات میں ہیلری کے آنے سے امریکہ کی اتنی متعصبانہ سوچ میں کچھ مثبت انداز شامل ہونے کی توقع تھی جوکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد اسکے برعکس محسوس ہو رہے ہیں‘ لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ہیلری کو ایک بڑی تعداد میں ایسی عوام نہ ملی کہ جس نے انہیں ووٹ نہ دیئے ہوں۔ امریکہ میں اس وقت عوام کی ایک بڑی تعداد افسردہ بھی ہے اور حیرت زدہ بھی ہے اور اس عوام کی موجودگی میں یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انداز بہتر رکھیں گے مگر فی الحال ان کے نظریات کی وجہ سے مایوسی اور فکرمندانہ فضا بھی قائم ہے۔ جیسا کہ بھارت میں مودی کے آنے کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھاکہ وہ کس قسم کی سوچ کو لیکر آگے بڑھیں گے اور جیسے جیسے ان کے اقتدار کے دن آگے بڑھے وہ عین توقعات کے مطابق سامنے آتے چلے گئے۔ مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔ ظاہر ہے کہ جیت پر مبارکباد کا پیغام دنیا کے دیگر ممالک سے بھی آئیگا کیونکہ ڈونلڈ دنیا کی واحد سپر پاور کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور اب اس قدوقامت پر انہیں زعم بھی ہوگا۔ بقول شاعر؎
جس کا سایہ نہ پھل پھول نہ مصرف کوئی
سرو بے فیض کو زعم قدو قامت ہے ضرور
یعنی سرو کے درخت کا سایہ بھی نہ ہو اور پھل پھول بھی نہ دے مگر پھر بھی اسے اپنے قامت کا زعم تو ہوتا ہے‘ لیکن ان سارے حالات میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ امریکہ کی عوام نے جو فیصلہ کیا‘ وہ خود ہی بھگتیں گے ورنہ عالمی سطح کی پالیسیوں میں کچھ تبدیلیوں کے علاوہ کوئی قیامت نہیں آنے والی ہے کیونکہ وہاں ادارے مضبوط ہیں اور پرانی پالیسی کو لیکر آگے چلنے کا نظام موجود ہے البتہ امریکہ میں جمہوریت اور انسانیت نوازی اور نسلی تعصبات پر سوالات اٹھنے کے امکانات موجود ہیں۔ 1964ء میں بی بی سی لندن پر ایک خاتون کاانٹرویو چلا تھا جس میں اس نے بتایا تھا کہ وہ ایک روز مجمع میں تقریر کر رہی تھی تو ایک مرد نے تقریر کے دوران مداخلت کی اور کہا ’’گھر جا کر اپنے خاوند کی قمیض دھوئو کالر گندا ہے۔‘‘ اس خاتون نے تو مداخلت کرنیوالے کو جواب دیا تھا مگر فی الحال امریکہ میں ہیلری کلنٹن کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38