کتنی بڑی نعت ہے یہ وطن اور اس وطن میں آزادی کی زندگی ، ہم اہل پاکستان اپنی قسمت پر غور نہیں کرتے اس لئے شکرانہ کی نعمت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔
ہمارا خطہ زمین ، ہمارے وطن کے جغرافیائی خدوخال رشک جنت ہیں اور ہم اپنے پڑوسی ملک جو سدا کا حریف ہی رہا ہے اس کی نسبت ذہن کے کتنے خوشحال ہیں۔ یہ خوشحالی دنیا بھر کے بڑے ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں کو بھی نصیب نہیں ۔
ہمارے وطن کی خوشحالی میں تو عام پاکستانیوں کا جذبہ ایمان ہی بولتا ہے ۔ ان کا جذبہ ایمان سلامت رہے تو یہ ہر مصیبت اور رنج و آلام کو راحت میں بدلنے کا عزم لئے ہوتے ہیں ۔ نظریہ اور عقیدہ ایک بہت بڑی قوت ہے۔ عمل میں استحکام اور تیزی اسی نظریے اور عقیدے کی برکت سے حاصل ہوتی ہے۔ بہت صاف اور تاریخی حقیقت تو یہی ہے کہ اس خطہِ پاک کی بنیاد میں ایک ہی قوت کار فرما تھی وہ قوت لا الہ الا اللہ محمدالرسول اللہ کی ناقابل شکست قوت ہے ۔ اس قوت میں کسی بھی پستی اور بزدلی کی آمیزش نہیں ہے ۔ یہ قوت ہر زماں و مکان کو متحرک رکھتی ہے ۔ اس قوت کو نحوست خزاں چھو کر نہیں گئی اور یہ سدا بہار قوت عقیدہ کسی بھی دور میں کسی بھی نظریئے کے نام سے ظہور پذیر ہو صحتمندی ہی اس کا مبارک ثمر ہے ۔ برصغیر میں مسلمانوں پر جبری نظریات اور فرسودہ ثقافت کو جس بُرے انداز سے مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس پر پڑے ہوئے گہرے پردوں میں ایسی جاذبیت تھی کہ ہماری قوم کے نوجوان بھی تہذیب نو کی چمک پر اپنی ، ذہنی روشنی کو مدھم کر چکے تھے ۔ تہذیب نو کی یہ ابلیسی قوت ہمارے قومی امتیازی تصورات کو کمزور سے کمزور تر کر رہی تھی ۔ اقبال نے اس ابلیسی قوت کی پروردہ تہذیب مغرب پر تجزیاتی مراحل اور فکر سلیم کی منازل کے قریب ہو کر یہ تنقیدی شعر کہا:
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، نا پائیدار ہو گا
تہذیب اور ثقافت میں جو پختگی اور استحکام عقیدہ توحید و رسالت کی بنیاد سے میسر آتا ہے اس عقیدے کی قوت تہذیب و ثقافت میں عالمگیریت اور بین الاقوامی جاذبیت پیدا کرتی ہے اور یہی جاذبیت اسلام کی اشاعت و قبولیت کا سبب اول ہوتی ہے ۔
یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
اور یہی قوت ہے جو مزاحمتی ماحول اور منافقانہ کردار کے اجتماعی معاشروں کی طاقت کے باوجود ایسے صالح فکر اور جہد مسلسل کے حامل افراد تیار کرتی ہے جو مایوسی کے ماحول میں اذانِ سحر کا اہتمام کرتے ہیں اور وہ اپنی معروضی اجتماعیت کی مایوس کارکردگی سے متاثر نہیں ہوتے۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
یہ اقبال ہی ہے جن کی فکری کاوشوں نے مٹے ہوئے قافلے کو ہمت سماواتی عطا کی اور نظریاتی ہم آہنگی کے ساتھ سیاسی منزل کے ساتھ ایسے افراد کو بھی تلاش کیا جو اپنے کردار اور عزم و ثبات کیساتھ مسلسل جدوجہد کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ ان کے متحرک آئیڈیل تھے اور اقبال کی عقابی نظروں کا محبوب مقصود تھے ۔
اقبال کے نظریاتی افکار نہایت ہی متوان اور قابل عمل ہیں کیونکہ یہ نظریات کتاب اللہ کی تعلیمات اور رسول آخر الزمان ؐ کی انسانیت نواز معاشرتی اقدار سے ماخوذ تھے ۔
دو قومی نظریے میں یہ حقیقت بہت ہی واشگاف انداز سے بیان کی گئی ہے کہ ہر قومیت کی شناخت اس کے مذہبی عقائد اور اس کی جداگانہ ثقافت ہے ۔ کوئی بھی قوم دوسری قوم کی شناخت اور مذہبی مقاصد کو پامال کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ البتہ اختلافی امور میں ہر قومیت کا اپنا دائرہ ہے اور ایسے اختلافی امور میں کسی کی بے جا ثقافتی اور خود ساختہ اقدار کو دوسرے کیلئے رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔
اگر کوئی ثقافت انسانوں کو رنگ و نسل کی خود ساختہ تقسیم میں ڈھالتی ہے تو یہ براہ راست ضرب پڑتی ہے۔ انسانیت کی یگانگت پر اور بڑا شدید حملہ ہے انسانوں کے بنیادی حقوق پر اور ایسے تقسیمی تصورات سے جو کہ انسانوں کے جبری اور خود ساختہ ہیں ۔ انسانوں کو حیوانوں کے مقام پر لیجانے کی ایک خاموش مشق ہے جو بالآخر انسانوں کے مابین فساد سے قتال اور جنگ کا سبب بنتی ہے ۔ انسان کا انفرادی معاملہ اگر معاشرتی احتیاجات میں جکڑا ہوا ہے ۔ لیکن اس کو غلامی میں بدل کر فرعونیت کو مسلط کرنا عجب نا سمجھی اور شعور کا قتل ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ برصغیر کے ہندو جبری معاشرے میں انسانیت سوزی پر مبنی سلوک انسانوں کی غیر فطری تقسیم تھا اور ان پر مذہبی پابندیوں کا ایک ایسا ناروا سلسلہ تھا جو کسی بھی سادہ طبیعت انسان کیلئے برداشت سے باہر تھا ۔
آج کی تازہ ترین بھارتی سماجی صورتحال ساری دنیا پر عیاں ہے کہ دلت مظلوم اقلیت ہندو جاتی کے ظلم و جبر کا شکار ہے ۔
بھارت میں مسلمانوں پر آئے دن کے پر تشدد واقعات اور کشمیر میں مسلمانوں کی جان ، مال ، عزت اور پورا وجود ہی بھارتی فوج کے ظلم کا شکار ہے ۔ اور یہ نظریہ انسانیت کے بالکل خلاف ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مذہبی عقائد سے اختلاف کی بنیاد پر اس کے وجود ہی کو سرے سے نیست و نابود کر دیا جائے۔
قومیت کے تصورات کی خود ساختہ تعمیرات کے نتائج یہی کچھ ہوتے ہیں جو آج کشمیر و فلسطین میں مسلم کشی کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ اقبال کا نظریۂ قومیت ہی مسلمانوں کی سر بلندی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024