گزشتہ چند روز سے پوری دنیا امریکہ کے صدارتی انتخا با ت کی گہما گہمی اور انکے نتائج کے بارے میں تبصروں اور تجزیوںسے گونج رہی ہے ۔ امریکہ جیسی سُپر پاور کا حکمران پوری دنیا کی طاقتور ترین شخصیت تسلیم کیاجاتا ہے ۔ اس لمحہ جبکہ راقم یہ سطریں تحریر کر رہا ہے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انتخابی مہم اپنے نقطہ عروج پر ہے بعض ریاستوں میں انتخا بی عمل مکمل ہو چکا ہے اور ابتدائی جائزوں کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ہُما تاج حکمرانی ڈیمو کریٹ پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے سر پر یہ تاج سجا دیگی۔ دوسری طرف ریپبلکن پارٹی کا امید وار ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایک کانٹے دار مہم چلا کر پُر امید ہے کہ ریاست ہائے متحدہ کے عوام اور ریاستوں کی اکثریت بالآخر اُسکے حق میں ہی فیصلہ دیں گی ۔ اس آخری لمحہ میں بھی ریپبلکن پارٹی کا امید وار ما یوس نہیں ہے بلکہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک امیدوار اپنی فتح کے یقین میں یہ دعو ے کر رہا ہے کہ اگر وہ ناکام قرار دیا گیا تو وہ ایسے انتخابی فیصلے کو امریکن قانون اور آئین کے مطابق درست فیصلہ پر اپنی مخالف ہیلری کلنٹن کو اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے مبارک باد نہیں دیگا بلکہ فیصلہ کو چیلنج کریگا ۔ تجزیہ نگار اس کی وجہ یہ بیان کر تے ہیں کہ دونوں امیدواروں کے درمیان مقابلہ پوری مہم کے دوران نہایت سخت اور کانٹے دار ہونے کی وجہ سے کسی ایک کی فتح واضح نہیں ہے دوئم امریکی انتخا بی تاریخ میں پہلی بار ایک عورت امریکی صدارت کیلئے میدان میں اُتری ہے اور اس لیے مرد کی بر تری کا تخیر رکھنے والا ایک امریکن طبقہ ابھی تک اس بارے میں تحفظات رکھتا ہے ۔ تیسری دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جیسے جدید اور ماڈرن تصورات رکھنے والا ملک پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے دیرینہ اور صدیوں پُرانے روایتی تصورات کا حامل ہے ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ امریکہ میں ایک سابق صدر کے بیٹے تو صدارتی انتخا ب میں کامیا ب ہوئے ہیں اور ماضی کی روایات کو پاؤں تلے دفن کر تے ہوئے ایک کالے حبشی کو بھی اپنا صدر منتخب کیاہے لیکن اس دفعہ نہ صرف ایک عورت بلکہ ایک سابق صدر کی بیوی امریکہ کی پہلی عورت نے ایسی شاندار مہم چلا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے اور رائے عامہ نے ایک عورت کی مہم کا اکثر و بیشتر ریاستوں میں بھر پور ساتھ دیا ہے ۔ اور اب تک کے تا دم تدیر تجزیوںکے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہے لیکن اتنا پیچھے بھی نہیں ہے کہ یقین کے ساتھ اُسکی شکست کی پیشنگوئی کی جا سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران عالم اسلام کے خلا ف ایک واضح اور کھلم کھلا معتصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے امریکی تاریخ میںپہلی مرتبہ ایک صدارتی امیدوار نے نہایت جرأت سے کام لیتے ہوئے نہ صرف دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اسلامی ریاستوں بلکہ امریکہ میں بسنے والے اسلام نژاد امریکیوں کے خلا ف بھی زہر گھولنے میں کوئی کثر نہیں اُٹھا رکھی جس سے امریکہ کے خالص سیکولر اور جمہوریت پسند ہو نے پر بھی امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے تعصب کی سخت مزاحمت کی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایسے نسلی تصورات اور مذہبی تعصبانہ پرچار کی بھی امریکی شہریوں کی آبادی نے واضح طور پر مزاحمت نہیں کی بلکہ امریکہ کی ایک طاقتور سیاسی پارٹی نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خیالات کے حامی صدارتی امیدوار کی پوری مہم کے دوران بھر پور امداد جاری رکھی ہے اس لیے اس انتخا ب کے آخری ووٹ گنتی کے عمل کے بعد راقم ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو رد نہیں کرتا کیونکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی تعمل نہیں ہے کہ نہ صرف امریکہ کی بعض طاقتور حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کی پشت پناہی کر رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اُس کو یہودی لا بی جسے Zionistکہنا زیادہ منا سب ہو گا مسلمانوں کے بارے میں ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں اور اس لیے امریکی صدارت کیلئے دنیا کے طاقتور بینکر ز اور بین الا قوامی فیصلے کرنیوالے دیگر Zionistادارے یقینا ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر اور واحد سُپر پاور کا کنٹرول دینے کے حق میں ہونگے ۔اس موقع پر میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں یہودی آبادی امریکہ میں پائی جاتی ہے میرے نہ صرف اندا زے بلکہ ریسر چ کے مطابق نیو یارک سٹیٹ میں یہودی آبادی کی تعداد اسرائیل میں یہودی آبادی کے کم و بیش برابر ہے ۔ اسکے علا وہ امریکہ اور مغربی یورپین طاقتوں کے اکثر و بیشتر بڑے بڑے بنکوں کے مالکان سب یہودی ہیں امریکہ کی تمام بڑی یو نیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں یہودی اکثریت رکھتے ہیں جس سے امریکی حکومتی فیصلوں میں اُن کا اثر صا ف ظاہر ہے میں صر ف نیو یار ک سٹی میں سب سے بڑی یو نیورسٹی کے تین میڈیکل کالجوں میں یہودی بالا دستی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ان تمام میڈیکل اداروں میں یہودی طلباء اور اساتذہ کی تعداد 80فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ میرا ایک قریبی دوست جس ڈیپارتمنٹ میں ہے اُس میں 100فیصد پروفیسرز ہیں جن میں ایک ہندوستانی ڈاکٹر مکھر جی ایک پاکستانی ڈاکٹر اور باقی 98ڈاکٹر ز یہودی ہیں ایک دوسرے میڈیکل شعبہ میں بھی 100 کے لگ بھگ ڈاکٹر زاور اساتذہ ہیں جن میں 99 یہودی ہیں اور صرف ایک ڈاکٹر پاکستانی ہے جس سے یہودی لا بی کی طا قت اور امریکن ووٹر کے علاوہ امریکی حکومت کے مختلف شعبوں میں یہودی اکثرو رسو خ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسکے پیش نظر اگر امریکی ریاستوں اور عوام میں صدارتی ووٹ ہیلری کی تمام تر خوبیوں اور پہلی خا تون کے صدر منتخب ہونے میں ہیلری کلنٹن کامیاب نہ ہو سکی اور یہودی بین الا قومی بینکرزکی کھلم کھلا سپورٹ سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا نیا صدر منتخب ہو جائے تو کوئی تعجب کی بات نہ ہو گی ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024