متعصب و متنازع ڈونلڈ دنیا کا طاقتور ترین شخص
اپنی تحریر کا آغاز اپنے مکرم دوست ڈاکٹر عطاءاللہ عالی کے فرمان سے کر رہا ہوں، جنہوں نے امریکا میں ٹرمپ کی فتح پر دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "امریکی خواتین نے بتا دیا کہ انہیں کیسے مرد پسند ہے"۔ عالی صاحب ایک معروف ڈرامہ رائٹر اور زبردست انسان ہیں۔ خیر یہ تو ان کا جائزہ تھا جو کسی حد تک مصدقہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یاد رہے ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں اس ہیلری کو شکست دی ہے جو آٹھ سال قبل بھی جیت کے عین قریب پہنچ کر مقبول ہوتے اور ابھرتے سیاست دان باراک اوباما سے شکست کھا گئی تھی۔ اس بار بھی ہیلری کی پرواز بہت اونچی اُڑی لیکن ہوا کیا کہ وہ توازن برقرار نہ رکھ سکیں۔ وہ برتری برقرار نہ رکھ پائی جو انہیں مصدقہ جائزوں کے مطابق حاصل ہو چکی تھی۔ کیا ہیلری کے ذہن میں ایسا سوال بھی گردش کر رہا ہو گا جس کی طرف برطانیہ کے میڈیا نے اشارہ کیا۔ یعنی امریکی عوام اپنی تمام تر جدیدیت، فراخ دلانہ رویوں، وسیع النظری اور جنسی امتیاز کے طرز عمل سے نفرت کرنے کے باوجود "کسی خاتون کو اپنے ملک کا صدر بنانے پر یقین نہیں رکھتے"۔ وہ اس بات پر متفق نہیں کہ ایک عورت بھی ان کے ملک میں حکم رانی کر سکتی ہے؟ کیا امریکا کے عوام اکیسویں صدی میں بھی "عورت"کو صدر بنانے سے احتراز کرتے ہیں۔ آٹھ سال قبل اوباما کی شکست کے بعد ہیلری نے کہا تھا وہ خواتین کے خلاف امتیازی رویوں کا خاتمہ چاہتی ہین، جس کی جدوجہد جاری رکھوں گی۔ امریکی عوام کو اتنی آگاہی دلانے کے بعد انہیں اتنا تو ادراک ہو ہی گیا تھا کہ وہ آئندہ امریکی عوام کا انتخاب ضرور ہوں گی۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ ان کے لئے نا پسندیدگی کے جذبات اس لئے تو ہو سکتے ہیں کہ وہ ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہیں مگر اس بات سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے وہ دنیا کی مقبول ترین خواتین میں سے ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے مشفقانہ، دوستانہ اور اچھے مزاح کی مالک ہیں۔ وائٹ ہاﺅس کے سابق ترجمان نے ہیلری کو سمارٹ خاتون قرار اسی لئے دیا تھا کہ ان کے مطابق وہ اپنے مسائل کے حل میں شوہر بل کلنٹن اور اوباما سے بھی زیادہ شاطر ہیں۔ خیر ایک تاثر ہے کہ امریکا کا صدر کوئی بھی ہو لیکن اس کی خارجہ پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن انتخابات کی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں اور تارکین وطن کے بارے کچھ اچھے خیالات نہیں تھے، شاید بھارتی انتہا پسند ہندو بھی ٹرمپ کی فتح پر اسی لئے جشن منا رہے ہیں۔ یوں تو ٹرمپ بطور صدر پہلے خطاب میں ہی انتخابی مہم والے تاثر کو زائل کرتے دکھائی دیئے اور ہم بھی یہی امید کرتے ہیں کہ وہ سپر پاور امریکا کا صدر ہونے کی حیثیت میں اوچھی حرکات اور نالائقیوں سے باز رہیں گے۔ جیسا کہ انہوں نے سب کے ساتھ مل کر چلنے کا اظہار کیا۔ بعض لوگ اس بات پر بھی حیران ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ پاکستانی خوام خواہ ہیلری کی حمایت میں بول رہے ہیں، کیا وہ ہماری ہم سائی ہے، یا کوئی پھپھو، ماسی؟ میرے نزدیک یہ حمایت محض اور محض ٹرمپ کی عجیب پالیسیوں پر ہیلری کے لئے تھی، چوں کہ ٹرمپ اپنے بزنس مینوں کو مضبوط و مستحکم کرنا چاہتے تھے جب کہ ہیلری اپنے متوسط عوام کو مضبوط کرنا چاہتی تھیں اور چند فلاحی منصوبوں کا آغاز بھی چاہتی تھیں۔ ہیلری کم سے کم ٹرمپ جیسے انتہا پسندانہ، متعصبانہ ذہن کی مالک نہیں اور پاکستانی عوام اس لئے بھی ہیلری کو پسند کر رہے تھے کہ امریکا میں مسلمان کمیونٹی ہیلری کو چاہ رہی تھی۔
قارئین، یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ دنیا کے کئی دارلحکومتوں اور بڑے بڑے شہروں میں میڈیا مالکان، سیاسی پنڈتوں، تجزیہ کاروں اور اینکرز کو ٹرمپ کی کام یابی کے امکانات موہوم نظر آتے تھے۔ میڈیا نے منگل کی صبح تک ہیلری اور ٹرمپ کے مابین مقابلہ کی اعصاب شکنی کا ٹیمپو برقرار رکھا تھا مگر کیا ہوا کہ وہ خوابیدہ ووٹرز باہر نکلے، جس نے ہسپانوی، فلاڈیلفیا سے لے کر شمالی کیرولینا، اوہائیو، پینسلوانیا اور فلوریڈا سمیت کئی دوسری ریاستوں میں ٹرمپ کی سنسنی خیز برتری کے تجزیئے پیش کرنا شروع کرد یئے۔ بعض مبصرین یہ قیاس کر رہے تھے کہ ہسپانوی اور سیاہ فام سمیت مسلمانوں کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات ان کو شکست سے دو چار سکتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ہیلری کا کہنا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوں تو امریکی سامراج اور اشرافیہ کے استعماری مفادات کی محافظ بننے کا کردار بدستور ادا کرتی رہیں گی۔ چند سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیںکہ امریکی سلطنت کے زوال کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ امریکی قوم خوف زدہ ہے، ٹرمپ کی فتح نفرت و خوف کا نتیجہ ہے۔ تیسری دنیا سمیت، ایشیا، افریقا اور مشرق وسطیٰ کے حکم رانوں کی نگاہیں امریکی پاکیسیوں میں آئندہ ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں پر مرکوز رہیں گی، جب کہ کسی کو یہ یقین بھی نہیں ہے جو ٹرمپ نے انتخابی مہم میں باتیں کہیں اور ان کا امریکی اسٹیبلشمنٹ کی آئندہ حکمت عملی اور عالمی پالیسویں میں کتنا عمل دخل ہو گا۔ سیاسی دانش وروں کے نزدیک امریکا کو عالمی صورت حالات کا ادراک کرنے ضرورت ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی غیر محفوظ پالیسیوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں۔ اس لے وہ ایسا طاقت ور شخص چاہتے ہیں جو امن عالم، غربت، جنگ و جدل اور دہشت گردی اور پراکسی وارز کے خاتمے کے لئے عظیم تر اشتراک عمل میں پہل کرے اور نہ صرف ڈیموکریٹ بلکہ تمام عالمی قوتوں کو ساتھ ملا کر "امن"کا نیا روڈ میپ مرتب کرے۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم کیسی ہوتی ہے۔ ان کے مشیران با تدبیر پاکستان سمیت دنیا کے دیگر سیاسی و قومی معاملات سے کس طرح نمٹنے کی تدبیر اختیار کرتے ہیں۔ اس لئے امید و یقین کا دامن تھامنے کی جو تلقین کی جا رہی ہے وہ بلا ضرورت نہیں ہے۔ ٹرمپ کی جیت چشم کشا ہے۔ پاکستان کو اپنی حکمت عملیوں اور پرانی اسٹریٹیجی کو گو تھرو کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ امریکا کو یہ باور کرانے کی بھی ضرورت ہے کہ بھارت نوازی پاکستان جیسے حلیف کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ امریکا پاکستان تعلقات مستحکم کرنے کی گیند ڈونلڈ ٹرمپ کے کورٹ میں ہے۔ خطے کا امن امریکی تدبر سے مشروط ہے۔ متنازع و متعصب اور منہ پھٹ ڈونلڈ ٹرمپ اب دنیا کا طاقت ور ترین شخص ہے۔ وہ کیسے بنا ؟؟؟ ٹرمپ یاد رکھیں کہ عوام نے اسے امریکا کے لئے چنا ہے اور الیکشن مہم جیسی انتہا پسندانہ سوچ ترک کر کے ایک مثبت امیج اور خیالات پیش کرے تا کہ امریکا اپنا سپر پاور ہونے کا جائز کردار ادا کر سکے۔