یومِ اقبال کی تعطیل
وطن عزیز پاکستان ایک نظریئے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور وہ نظریہ سرسید احمدخان اور پھر باقاعدہ طور پر 1930میں اپنے خطبہ اٰلہ آباد میں شاعرمشرق علامہ محمد اقبال نے پیش کیا۔ جس میں تجویزدی گئی کہ مسلم اکثریت پر مشتمل علاقوں کی ایک الگ مملکت قائم کر دی جائے۔جس میں برصغیر کے مسلمان اپنے مذہب، آئین اور رسوم و رواج کے مطابق رہ سکیں۔ گویا 1930 میں برصغیر کے مسلمانوں کو پہلی مرتبہ اپنا ایک واضع مقصد دکھائی دیا۔ علامہ اقبال ایسے رہنما اس امر سے کما حقہ آگاہ تھے کہ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے عنان حکومت چھینی اور ہندو سالہاسال سے مسلمانوں کی محکومی میں رہے لیکن اب انگریزوں نے ہندوﺅں کو بھی اتنا شاطر بنا دیا ہے اور انہیں حکومتی امور میں اس حد تک شامل کر لیا گیا ہے کہ اب اگر انگریز برصغیر سے جاتے بھی ہیں تو مسلمانوں کے پاس وہ طاقت نہیں رہی کہ وہ پھر سے اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مبنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست قائم کر دی جائے اور اس ریاست کا تصور علامہ اقبال نے پیش کیا جس کی بنا پر علامہ اقبال کو مصور پاکستان بھی کہا جاتا ہے اور یہ قوم اقبال کی شاعری اور اُن کے تصورات سے قیام پاکستان بلکہ اس سے بھی پہلے سے مستفیض ہوتی چلی آ رہی ہے۔ اقبال کے تصور کو محمد علی جناح نے عملی جامہ پہنایا۔ 23مارچ 1940 میں قرارداد پاکستان منظور ہوتی ہے تو صرف سات برس کے قلیل عرصے میں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر چکا تھا یوں پاکستان اور اس کی قوم کے پاس علامہ اقبال اور محمد علی جناح جیسے لیڈر میسر آ گئے کہ جن کے ساتھ قوم کا تعلق صرف ایک رہنما کا ہی نہیں بلکہ وہ قلبی اور روحانی طور پر بھی ان شخصیات کے ساتھ جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور یہ قوم ان کے ساتھ احترام کے ایسے رشتے میں بندھ گئیں کہ ان کے نام پر وہ بڑی سے بڑی قربانی دینا بھی باعث افتخار گردانتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے لئے جناح اور اقبال بالکل ایسے ہی ہیں جس طرح امریکی قوم کے پاس ابراہیم لنکن تھے۔ چینی قوم کے پاس ماﺅزے تنگ تھے یا کسی اور قوم کے پاس کوئی بڑے سے بڑا رہنما ہو سکتا ہے۔ پاکستانی قوم کے لئے قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات اگر باعث تقلید ہیں تو اقبال کی شاعری قوم اور اس کے جوانوں کے لئے نئے راستے متعین کرتی ہے۔ ان میں خودی اور حمیت جیسی خوبیاں اجاگر کر کے انہیں دنیا میں سراٹھا کر جینے کا درس دیتی ہے۔ یوں ان دونوں رہنماﺅں کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر قومی تعطیل کا انعقاد کر کے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا تاکہ قوم بالخصوص نئی نسل ان کی شخصیات سے متعلق نہ صرف آگاہ رہتی ہے بلکہ ان کی تعلیمات قوم کے لئے روشنی اور رہنمائی کا باعث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بانی پاکستان قائداعظم کی یوم وفات پر تعطیل جو 11ستمبر کو ہوتی تھی ختم کی گئی اور گزشتہ برس علامہ اقبال کے یوم پیدائش 9نومبر کی تعطیل بھی ختم کر دی گئی تو لوگوں کو مایوسی ہوئی انہیں یوں معلوم ہوا جیسے ان قومی شخصیات کی قدر میں کمی لائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ظاہر ہے عوام کبھی بھی پسند نہیں کریں گے۔ گزشتہ برس بھی شائد کسی ایک آدھ صوبے میں علامہ اقبال کے یوم پیدائش کی چھٹی بحال رکھی گئی لیکن وفاق اور دیگر صوبوں میں چھٹی نہیں تھی۔ یہی تماشتہ اس برس بھی ہوا جب وفاق نے یوم اقبال کی تعطیل بحال نہ کرنے کا عندیہ دیا تو صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں تعطیل اعلان کر دیا گیا۔ پہلے خیبرپختونخوا کے حوالے سے خبر آئی کہ وہاں یوم اقبال کی تعطیل ہو گی اور اس دن اقبال کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا جائے یہی کچھ وفاق کے بارے میں سنا گیا۔ سوشل میڈیا پر تو ایک جعلی قسم کا سرکولر بھی گردش کرتا رہا۔ لیکن بعد ازاں وفاق کی جانب سے تردید آ گئی کی اقبال ڈے کی تعطیل نہیں ہو گی۔ جس کا عوام موٹے طور پر یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ اقبال ڈے نہیں منایا جا رہا۔ قومی سطح پر کوئی ڈے منایا جائے گا یا نہیں منایا جائے گا اس کا فیصلہ یقینا ریاست بہت سوچ بچار کر ہی کرتی ہے۔ لیکن اس میں بہت ضروری ہے کہ قومی سطح پر ان فیصلوں میں یکسوئی بھی دکھائی دے جو کہ کم از کم اقبال ڈے کی تعطیل کے حوالے سے تو دکھائی نہیں دی۔ سوشل میڈیا پر تو یہ موقف بھی سامنے آیا کہ چونکہ علامہ اقبال کے پوتے نے پی ٹی آئی جوائن کر لی ہے لہٰذا وفاق نے غصے میں آ کر ان کے دادا حضرت علامہ اقبال کے یوم پیدائش کی تعطیل کا گلا گھونٹ دیا ہے چلیں اس کو اگر درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر خیبرپختونخوا نے یہ تعطیل کیونکر ختم کر دی۔ وہاں تو ہے ہی پی ٹی آئی کی حکومت۔ بہرطور جو بھی ہو قومی سطح کے رہنماﺅں بالخصوص قائداعظم اور علامہ اقبال کے حوالے سے یکسوئی کا نہ ہونا مناسب نہیں ہے۔ اگر ریاستی سطح پر ان کے حوالے سے کوئی تعطیل ختم کرنی ہو تو قومی سطح پر یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ تمام صوبے بھی تعطیل ختم کریں۔ گویا دیگر قومی اہم امور کی طرح یہ معاملات بھی قومی ہی ہوتے ہیں۔ ان پر بھی قومی رائے عامہ کو ہموار کر کے کوئی فیصلہ کیا جانا چاہئے وگرنہ اگر ایسی شخصیات کے وقار کے منافی اقدامات یقینا پاکستان کے وقار کو گزند پہنچانے کے مترادف ہے جو یقینا مناسب نہیں ہے۔