ٹرمپ کے انتخاب پر امریکہ اور دنیا بھر میں مایوسی اور غم و غصہ کا اظہار اور انکے اقتدار کو نظر آنیوالے چیلنجز
امریکی ری پبلکنز کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر امریکہ کامیابی پر دنیا بھر میں حیرت‘ پریشانی‘ مایوسی اور غم و غصہ کا اظہار جاری ہے۔ انکے انتخاب کی خبریں ملنے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں سٹاک مارکٹیں کریش کرگئیں‘ امریکی ڈالر اور خام تیل سستا ہو گیا۔ وال سٹریٹ‘ لندن‘ ٹوکیو‘ میکسیکو‘ شنگھائی‘ سڈنی‘ ممبئی اور دیگر ممالک کے بازار حصص سخت متاثر ہوئے اور سٹاکسٹوں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ پاکستان میں انڈیکس 848 پوائنٹ گرنے کے بعد کچھ سنبھلا جبکہ امریکی ڈالر دس پیسے سستا ہوگیا اور عالمی مارکیٹ میں خام تیل کے نرخوں میں ایک ڈالر 66 سینٹ فی بیرل کمی دیکھی گئی۔ البتہ سونے کے نرخوں میں فی اونس 51 ڈالر کا اضافہ ہوا۔ عالمی میڈیا پر ٹرمپ کا انتخاب تاسف کے اظہار کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور انکے انتخاب پر مختلف انداز میں تبصرے جاری ہیں جبکہ انکی کامیابی کو ایک زلزلے جیسے جھٹکے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق امریکیوں نے سب سے خطرناک شخص کو صدر منتخب کیا ہے جبکہ فرانسیسی اخبار لبریشن نے اپنے تبصرے میں یہ ریمارکس دے کر بھڑاس نکالی ہے کہ ٹرمپ کی جیت سوچوں کو جام کر دینے والی غنودگی ہے اور یہ تصور کرنا بھی اذیت ناک ہے کہ دو اڑھائی ماہ بعد ٹرمپ جیسا درندہ‘ جھوٹا اور واہیات شخص وائٹ ہائوس میں براجمان ہوگا۔ جرمن اخبار ’’سوڈیشے ژیئونگ‘‘ نے بھی ٹرمپ کے انتخاب پر منفی ریمارکس دیئے ہیں اور تبصرہ کیا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم ایک قومی بحران کا نتیجہ لے کر سامنے آئی اور ایک تباہ کن شخصیت کے مالک ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ میکسیکو کے اخبار ’’کرونکاڈیل‘‘ کے مطابق شمال سے آنیوالی خبر میکسیکو اور یورپی دنیا کیلئے بہت بری خبر ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے اخبار ’’دی ایج‘‘ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کی چین کے ساتھ معاشی جنگ شروع کرادینگے اور دنیا کی سٹاک مارکیٹوں کا صفایا ہو جائیگا جبکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کوڑے کا ڈھیر بن جائیگا۔ امریکی اخبار ’’یوایس اے ٹوڈے‘‘ نے بھی امریکی صدر کیلئے ٹرمپ کے انتخاب پر منفی تبصرہ کیا ہے اور باور کرایا ہے کہ ٹرمپ کی جیت سے امریکہ میں رہنے والے مسلمان اور عرب باشندے خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ معروف امریکی ٹی وی نیٹ ورک سی این این بھی ٹرمپ کے انتخاب پر پھبتی کسنے میں پیچھے نہیں رہا جس کے مبصرین گزشتہ روز دن بھر واویلا کرتے رہے کہ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے سے دنیا کو سخت دھچکا لگا ہے۔ اسی طرح ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد اب دنیا کو کڑے وقت کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ برطانوی اخبار ’’ٹیلی گراف‘‘ نے تو یہ پھبتی کسی ہے کہ ’’اوہ خدایا! امریکیوں نے یہ کیا کردیا‘‘۔ ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ کے بقول غصیلی آواز والا اب دنیا کا طاقتور شخص بن چکا ہے۔ بی بی سی نے بھی ٹرمپ کے انتخاب پر ہونیوالے منفی تبصروں میں یہ کہہ کر حصہ ڈالا ہے کہ ٹرمپ نے ہلیری کو حیران کن شکست دی ہے۔
اگرچہ ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن نے ٹرمپ کے ہاتھوں اپنی شکست کو قبول کرتے ہوئے ٹرمپ کو مبارکباد بھی دی ہے اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ کو بطور صدر امریکہ قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اورپھر انکے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے مگر انکے حامی امریکی باشندوں بالخصوص سیاہ فام امریکیوں کو ٹرمپ کی کامیابی ہضم نہیں ہوئی جنہوں نے نہ صرف ٹرمپ کو بطور صدر قبول نہ کرنے کا اعلان کیا بلکہ انکے انتخاب پر ہنگامہ آرائی کا سلسلہ بھی شروع کردیا اور مظاہروں کے دوران قومی پرچم تک نذرآتش کردیئے جبکہ عالمی قیادتوں کی جانب سے بھی ٹرمپ کے انتخاب پر کسی خوشگوار ردعمل کا اظہار سامنے نہیں آیا۔ فرانسیسی رہنمائوں اور یورپی یونین کی جانب سے ٹرمپ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘ہیومن رائٹس واچ مسلم گروپ کی جانب سے ٹرمپ سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کریں۔ جرمن وزیر دفاع نے ٹرمپ کے انتخاب کو بڑے صدمے سے تعبیر کیا ہے جبکہ امریکہ کے علاوہ متعدد دوسرے ممالک میں بھی ٹرمپ کی کامیابی پر احتجاجی مظاہروں کی صورت میں سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف بھارت وہ واحد ملک ہے جہاں ٹرمپ کی کامیابی پر جشن منایا گیا جبکہ پاکستان میں اکثر سیاسی‘ عوامی اور دینی حلقے ٹرمپ کی کامیابی پر سخت مضطرب نظر آتے ہیں۔ بے شک وزیراعظم نوازشریف نے ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے نئی امریکی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور مشیرامور خارجہ سرتاج عزیز نے توقع ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرینگے تاہم عوامی سطح پر اور اپوزیشن کے حلقوں میں ٹرمپ کے انتخاب کو پاکستان کیلئے نیک شگون سے تعبیر نہیں کیا جارہا۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے بقول ٹرمپ کے انتخاب سے دنیا میں بڑی تبدیلی آئیگی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ٹرمپ کو باور کرایا ہے کہ انہیں مسلمانوں کے بارے میں اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ سابق صدر جنرل (ر) مشرف نے ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان بھارت تنازعہ حل کرانے کیلئے کردار ادا کریں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کے بقول کسی بھی قسم کا عدم اعتماد دونوں ممالک کے اچھے تعلقات میں حائل نہیں ہوگا۔
ٹرمپ کے بطور صدر امریکہ انتخاب پر امریکہ اور دوسرے ممالک میں سامنے آنیوالے منفی ردعمل سے قطع نظر‘ یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب دنیا کی سپرپاور امریکہ کے صدر منتخب ہوچکے ہیں اور خود امریکی عوام نے انہیں انکی خامیوں‘ بشری کمزوریوں‘ لاابالی پن اور نسلی اور مذہبی حوالے سے انتہائی متعصبانہ سوچ رکھنے کے باوجود اپنے صدر کے طور پر منتخب اور قبول کیا ہے اور انہوں نے امریکیوں کے مینڈیٹ کے تحت اپنے اقتدار کے چار سال کی ٹرم بہرصورت پوری کرنی ہے جبکہ اگلی ٹرم کیلئے بھی ری پبلکنز کا امیدوار بننے کی منصوبہ بندی انکے ذہن میں موجود ہوگی اس لئے سامنے آنیوالے سارے چیلنجز سے انہوں نے خود ہی عہدہ برأ ہونا ہے۔ اس کیلئے انہیں یہ سہولت ضرور حاصل ہوئی ہے کہ انہیں امور حکومت کی انجام دہی‘ قومی پالیسیوں کی تیاری اور قانون سازی کیلئے امریکی کانگرس میںکسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت عنان اقتدار ہی ری پبلکن پارٹی کے پاس نہیں بلکہ امریکی سینٹ اور ایوان نمائندگان میں بھی اس پارٹی کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے جس کے باعث امریکی کانگرس میں کوئی بھی بل‘ قانون‘ یا قرارداد منظور کرانے میں ٹرمپ کو کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا جبکہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنی شخصیت میں دکھایا ہوا احمقانہ جرأت مندی والا عنصر برقرار رکھا تو وہ امریکی کانگرس کی طاقت کے سہارے امریکہ کو بگاڑنے یا سنوارنے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں عندیہ تو یہی دیا ہے کہ وہ بیرونی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے معاملہ میں تدبر اور سنجیدگی کے ساتھ عہدہ برأ ہونگے۔ انہوں نے ’’عظیم تر امریکہ‘‘ کیلئے اپنے مخالفین سمیت تمام امریکیوں کو مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے تو انہیں اس کیلئے یقیناً نسلی امتیاز اور مسلم کمیونٹی کے بارے میں اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا پڑیگا جبکہ ایک سپرپاور کے صدر کی حیثیت سے عالمی تنازعات کے حل میں کردار ادا کرنے اور علاقائی و عالمی امن کیلئے کوششیں بروئے کار لانے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے جو ان سے لاابالی پن اور تعصبانہ طرز عمل ترک کرنے کی متقاضی ہے۔ اسی طرح امریکی عوام نے اوباما دور کی پالیسیوں کے باعث ملک میں پھیلنے والی بے روزگاری‘ معاشی عدم استحکام اور امریکی سالمیت کو لاحق ہونیوالے خطرات پر فکرمند ہوکر ایک صنعت کار کی حیثیت سے ٹرمپ سے معاشی استحکام اور بیرونی دنیا سے امریکہ کے بہتر تعلقات کی توقعات وابستہ کی ہیں تو انہیں بہرصورت ان توقعات پر پورا اترنا ہوگا اور رواداری کی بنیاد پر گلوبلائزیشن کو استوار کرنا ہوگا جبکہ انکی انتخابی مہم کے دوران اختیار کئے گئے طرزعمل اور انکی نسل پرستانہ سوچ بادی النظر میں گلوبلائزیشن سے متصادم رہی ہے۔ اگر اب بھی انکی یہی سوچ اور طرزعمل برقرار رہا تو امریکی معیشت کو کساد بازاری سے نکالنا اور اقتصادی استحکام سے ہمکنار کرنا بہت مشکل ہو جائیگا جبکہ عالمی اقدار اور اقتصادی استحکام ہی کسی ملک کے دوسرے ممالک کے ساتھ روابط کے راستے ہموار کرتا ہے۔ اس تناظر میں ٹرمپ کو اب بہرصورت اپنی قوم اور عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنا ہے ورنہ انکے بارے میںیہ قیافے درست ثابت ہونگے کہ وہ امریکی گورباچوف ہیں جن کے ہاتھوں امریکہ کے عدم استحکام کی بنیاد رکھی جائیگی۔ وہ اپنی ذات اور کردار کے حوالے سے اقوام عالم میں پیدا ہونیوالی غلط فہمیاں کیسے دور کرتے ہیں‘ اس کا اندازہ انکے صدر کے منصب پر فائز ہونے کے باعث انکی ابتدائی پالیسیوں سے بخوبی ہو جائیگا۔ اگر انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھارت کی جانب جھکائو سے متعلق اپنی ظاہر کی گئی پالیسی برقرار رکھی تو انکے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات آسودہ نہیں رہ سکیں گے اس لئے انہیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں سے امریکی تاریخ میں امر بھی ہوسکتے ہیں اور راندۂ درگاہ بھی۔ اگر 18 بار اقتدار میں آنیوالی ری پبلکن پارٹی نے امریکی صدر کیلئے ان کا انتخاب کیا ہے تو یقیناًکچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38