سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہ ایسا بے رحم کھیل ہے جس کا جذبات و احساسات سے کوئی تعلق نہیں اور اخلاقیات تو روزانہ اس کے در پر مصلوب ہوتی ہیں شائد اسی لیے آج سے چودہ برس پہلے ڈاکٹر عشرت العباد کو جب سندھ کا گورنر بنایا گیا وہ پانچ سنگین مقدمات میں مطلوب مفرور ملزم تھے جنرل مشرف کے حکم پر تمام مقدمات ختم کرکے انہیں گورنر سندھ کے منصب پر بٹھا دیا گیا کہ اس وقت مصلحت یہی تھی ڈائو میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ڈاکٹر عشرت العباد کا نام میجر کلیم کے اغوا کنندگان میں بھی نمایاں تھا لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف نے اپنے وقتی سیاسی مفادات کی خاطر اس سنگین مقدمے سے بھی چشم پوشی کر لی ۔ عشرت العباد جنہیں پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ اور ان کے سابق ساتھی مصطفی کمال ’’پیار‘‘ سے رشوت العباد بھی کہتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں کم عمر ترین جبکہ طویل عرصے تک گورنر کے مسند پر فائض رہنے کا ریکارڈ قائم کرگئے۔
ان جگہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سعید الزمان صدیقی کو گورنر سندھ نامزد کیا گیا ہے ۔ 80 سالہ سعید الزمان صدیقی چند قدم چلیں تو ان کا سانس پھول جاتا ہے وہ کسی طرح بھی گورنر کے علامتی منصب کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ ان کی نامزدگی پر کسی سنگدل ستم ظریف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنر صاحب کو گاڑی کی جگہ آمدورفت کے لیے ایمبولینس کی ضرورت ہو گی۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے دو رہنما نہال ہاشمی اورسینیٹر مشاہد اللہ کا نام اس منصب کے لیے زیر غور تھا لیکن جناب وزیراعظم نے سعید الزمان صدیقی کو نامزد کردیا صوبہ سندھ میں طرفہ تماشا رہا ہے کہ چند ماہ پہلے بزرگ سیاستدان قائم علی شاہ کی جگہ نوجوان مراد علی شاہ کو وزیراعلی بنایا گیا اب اس کے برعکس جواں سال عشرت العباد کو ہٹا کر بزرگ سعید الزمان صدیقی کو اس منصب پر بٹھا دیا گیا ہے۔
مدتوں پہلے جب ان کی جگہ صدر ممنون حسین کو امیدوار نامزد کیا گیا تھا تو اس کالم نگار سے گفتگو کرتے ہوئے آزردہ و رنجیدہ سعید الزمان صدیقی نے کچھ یوں کہا تھا ’’جیت یقینی ہو تو غیر جانبدار امیدوار ترجیح نہیں ہوتا‘‘ پاکستان کے سابق چیف جسٹس محترم و مکرم سعید الزمان صدیقی نے ایک جملے میں عملیت پسند سیاست کے مقابل اخلاقی راہ رسم کی اوقات کھول کر رکھ دی ہے ۔
2008ء کے صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) صدارتی امیدوار جسٹس سعید الزمان صدیقی کہتے ہیں کہ اس مرتبہ نظر انداز کیے جانے پر افسوس نہیں لیکن اس بات پر حیرت ہے کہ جب سیاسی جماعتیں حزب اختلاف میں ہوتی ہیں اور ان کے پاس صدارتی حلقہ انتخاب کے ووٹوں کی تعداد کم ہو تو مستحکم وفاق کا پرچار کر تے ہو ئے جانبدار اور غیر سیاسی شخصیت کو ملک کر صدر بنوانا چاہتی ہیں۔ لیکن جب اس جماعت کو عددی اکثریت حاصل ہو جائے تو اس کی حمایت یافتہ امیدوار کی فتخ یقینی ہو تو انہیں جیالا یا متوالا موزوں دکھائی دیتا ہے کہ ان کی پارٹی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ نواز لیگ نے اس مرتبہ انہیں اپنا صدارتی امیدواروں کی فہرست میں تو رکھا لیکن ان سے کسی ایک بھی رہنما نے بھی ان کی مرضی تک نہیں پوچھی۔
’’میرا نام اخباروں میں آیا تو مجھے لگا کہ میڈیا کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ لیکن ہر روز اس حوالے سے خبریں آنے لگی تو مجھے لگا کہ نو از لیگ جن امیدواروں کے نا م پر غور کر رہی ہے اس میں میرا نام شامل ہے۔ لیکن مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ میرا نا م فائنل ہو جائے گا۔ کیونکہ اس بار پارٹی کے کسی رہنما نے مجھے سے میری رائے تک پو چھنے کے لیے رابطہ نہیں کیا تھا۔ لیکن جب 2008ء میں جب صدرات کے عہد ہ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تو چوہدری نثار علی خان نے مجھ سے ٹیلی فون پر بات کی اور مجھ سے کہا کہ میاں نو از شریف صاحب چاہتے ہیں کہ آپ کو پارٹی کے پلیٹ فارم سے صدارتی امیدوار نامزد کیا جائے‘‘
سعید الزما ں صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک غیر سیاسی شخصیت کا فلسفہ تو اب بھی صادق آتا تھا مگر اس بار انتخاب ایک پارٹی کا رکن بنا۔
انہوں نے کہا کہ چند سال پہلے جب آصف علی زرداری کو صدر بنایا جا رہا تھا تو ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ان کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی ہے۔ مگر آج پھر ایک سیاسی وابستگی رکھن۔ والی شخصیت (صدر ممنون حسین)کو عہد صدارت کا امیدوار بنایا گیا ہے اور وہ فلسفہ بدل گیا ہے۔
جسٹس سعید الزما ں صدیقی کی جگہ جناب ممنون حسین کی نامزدگی عملیت پسند حکمت عملی کا تسلسل ہے جس کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک معاصر میں داستان گوئی کو کالم کے آہنگ میں ڈھالنے والے منفرد اسلوب نگار نے لکھا تھا کہ جب بھی پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے کا وقت آتا ہے سیا ست کا ’’دریائے نیل‘‘ بھی وفا شعار کارکنوں کی بھینٹ ما نگتا ہے اور بھینٹ لیے بغیر نہیں ٹلتا۔
لیکن سیاست کے اس دریائے نیل کا تو باو آدم ہی نرالا ہے ۔جو بھینٹ کسی اور کی لیتا ہے لیکن سیراب کسی اور کو کرتا ہے اس کی سیراب کی ہوئی زمین پر فصل کسی اور کی اگتی ہے لیکن پاکستان میں اس سیاسی دریائے نیل کے پیاسے تو کہیں اور نقل مکانی بھی نہیں کر سکتے ان کے پاس تو ایک ہی چوائس ہوتی ہے کہ جب بھی ضرورت پڑے آقا کی خوشنودی کے لیے بھینٹ دینے کے لیے تیار رہیں آقا کے ہر حکم پر اپنا سر تسلیم خم رکھیں اور ماضی میں کی جانے والی زیادتیوں پر کوئی گلہ شکوہ زباں پر نہ لائیں وفاشعار پرویز رشید اس کی تازہ ترین مثال ہیںیہ ہی بس دریائے نیل کے پیاسوں کی قسمت !
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38