وہ سرخ اور اداس آنکھیں
درد کی پرچھائیں آنکھوں کے اس احاطے میں دور دور تک بسی ہیں۔ وہ سرخ، زخمی اور اداس آنکھیں کہ جن میں کرب انڈیل دیئے گئے، جن آنکھوں کے آنگنوں میں گریے، نوحے اور رت جگے اگا کر ان کی دل کشی اور زیبائی کو ویرانیوں میں بدل دیا گیا۔ حسین و دل رُبا وادیوں کے ان مکینوں کے احساسات میں کتنے سنسان، پت جھڑ اور تپتے موسم جھونک دیئے گئے۔ سینکڑوں آنکھوں کے اجالوں کو سلب کر کے ہمیشہ کے لئے تاریکیاں ڈال دی گئیں۔ ان محبت مآب آنکھوں سے سارے اجلے خواب سیت کر عذاب ہی عذاب مسلط کر دیئے گئے۔ عفرا کے باپ کو بھارتی فوج نے مار ڈالا۔ وہ ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتی تھی مگر بھارتی ظلم و استبداد نے اس کی آنکھوں کو زخموں سے لاد دیا۔ وہی آنکھیں جن میں ملک و قوم کی خدمت کے جذبے کسی کاجل کی مانند سجے تھے اب لہو رنگ زخموں سے بھری تھیں۔ اس نے اپنی آنکھیں بچانے کے لئے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھے مگر ہاتھ تشدد کی تاب نہ لا سکے۔ زخموں سے اٹی عفرا کی تصویر دیکھ کر دل تڑپ اٹھتا ہے کہ آنکھیں سلامت نہ ہاتھ محفوظ، ان آنکھوں اور ہاتھوں کا جرم یہ ہے کہ وہ پاکستان کی محبت میں نہائے ہیں، یہاںذرا توقف کیجئے مجھے ایک اور شخص کے دو ہاتھ اور آنکھیں یاد آ رہی ہیں وہ شخص مسلمان ہے اور پاکستان کے مستقبل کے وزیراعظم کے خواب اپنے دل میں بسائے بیٹھا ہے۔ بلاول زرداری دیوالی کے موقع پر مندر گیا اس نے بت کے سامنے اپنے ہاتھوں سے تپسیا کے وہ سارے کام کئے جو ہندو کرتے ہیں۔ اس کی آنکھیں بھگوان کے سامنے بڑی مسرور اور خوش تھیں۔
دیکھوں ترے ہاتھوں کوتو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لئے ہیں
دل میں اگر انسانیت کی رمق کی معمولی سی چمک دمک بھی دھڑکتی ہو تو بلکتی آہوں پر ارتعاش اور تلاطم ضرور امڈ آتا ہے۔ ایریکا ڈکسن ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ ہے، وہ دو مرتبہ مقبوضہ کشمیر گئی اور عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، اس ویڈیو میں وہ بھارتی سفاکیت کا ذکر کرتے ہوئے بار بار رو پڑتی ہے۔ آپ ایریکا ڈکسن کے لفظوں پر غور کرتے جایئے کہ ایک اداکارہ کس طرح تڑپ اٹھی ہے، وہ کہتی ہے ”آپ کیسا محسوس کریں گی کہ آپ کا شوہر ناشتہ لینے جائے اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے؟ آپ کو کیسا لگے گا جب آپ کی بیٹی کی آنکھوں میں پیلٹ گن کی گولیاں ماری جائیں اور وہ زندگی بھر کے لئے نابینا ہو کر رہ جائے؟ آپ کیسا محسوس کریں گے جب آپ کی گلی، آپ کے قصبے اور آپ کے شہر پر قابض فوجی آپ کی بہن کی عصمت تار تار کر ڈالیں، آپ کیسا محسوس کریں گے جب قتل ہونے اور مارے جانے کا خطرہ مول لئے بغیر گھر سے باہر نکل ہی نہ سکتے ہوں؟ میں نہیں جانتی ایسا کیوں ہے لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ یہ انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے“ ایک اور رونگھٹے کھڑے کر دینے والی بات ایریکا یوں کہتی ہے کہ ”ماضی میں بھی مجھے کشمیر جانے کا موقع ملا، وہ خاندان اور وہ لوگ مجھے آج تک یاد ہیں جن سے میں نے ایک کشمیری قالین خریدا تھا، وہ پورے کا پورا خاندان اب مر چکا، اس خاندان کے 13افراد بھارتی فوج نے قتل کر ڈالے، مجھے کشمیر سے محبت ہے، مجھے ان یادوں سے، اس وقت سے محبت ہے جو میں نے وہاں گزارا ہے۔
کاش، نوازشریف کے دل میں بھی ایریکا ڈکسن جیسی نرماہٹ کی کوئی آہٹ کہیں سے نمودار ہو جائے، کاش! عمران خان بھی دھرنوں کی جگہ پاکستانی عوام کو بھارتی جارحیت کے خلاف بیدار اور تیار کرتا، کرسی کے لئے اس قدر گرما گرمی اور کشمیر کے لئے یہ سردمہری خود غرضی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے قتیل
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
ایریکا کشمیری نہیں مگر اس کے دل میں اہل کشمیر کی یادیں اور محبت فروزاں ہیں، نوازشریف کا خاندان تو کشمیر ہے پھر اس کے دل میں کشمیر کی محبت کی کوئی ایک کلی بھی کیوں نہ چٹک پائی۔ اپنے آباﺅاجداد کے اس علاقے کی یاد کی کوئی ایک کرن کہیں بھی نہ پھوٹی، محض اخباری بیانات سے کشمیریوں کے روگ اور سوگ کا درماں نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت نے 16سالہ قیصر صوفی کو تشدد کے بعد زہر دے کر شہید کر دیا، پھر اس کے جنازے پر شیلنگ کر کے 50سے زائد افراد کو زخمی کر ڈالا۔ 25سکولوں کو نذرآتش کر دیا اور درجنوں سکولوں کو بند کر کے فوجی چھاﺅنیوں میں تبدیل کر ڈالا، مگر نوازشریف کے دل میں کوئی بے ترتیبی پیدا نہ ہوئی۔ کبھی نوازشریف رات کے وقت اپنے نرم اور گداز بستر میں لیٹ کر سوچیں کہ اس کی پانچ سالہ وزارت عظمیٰ کا دور اختتام کے قریب ہے، اتنے طویل عرصے میں اس نے اہل کشمیر کے لئے عملی طور پر کیا کچھ کیا؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی بھارتی سفاکیت پر احتجاج کر چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن کا استعمال بند ہونا چاہئے کیونکہ اس سے سینکڑوں کشمیری نابینا ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے جسم و جاں کا کتنا خیال رکھتے ہیں، ایک سموگ نے ہماری آنکھوں میں بے چینی او ربے قراری گھول دی ہے۔ زہر آلود دھند نے ہمارے سانسوں میں ابہام اور پیچیدگی پیدا کر دی ہے اور اس قہر آلود دھند سے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیر کی لائنیں لگا دی گئی ہیں۔ سموگ کے اس عارضی روگ نے ہمارے تن من میں سراسیمگی پیدا کر ڈالی ہے۔ سموگ کی اذیت میں مبتلا لوگ اہل کشمیر کی صعوبتوں کا اندازہ لگائیں کہ جہاں زندگی کا ایک ایک پل اجیرن بنا دیا گیا ہے۔
میں حسن و جمال سے آراستہ کسی گمان کدے میں محو خیال ہوں، مجھے اپنے اردگرد دل کش احساسات کے غنچے مہکتے محسوس ہو رہے ہیں۔ مجھے اپنے قرب میں خوشبوﺅں کے انبار سے اجلی صبحوں کی مہک پیہم آ رہی ہے۔ میں بار بار عفرا کی تصویر دیکھتا ہوں اگرچہ اس کی آنکھیں زخمی ہیں۔ لاریب اس کے چہرے پر بھارتی جبروتشدد کے کئی نشانات موجود ہیں مگر اس کے باوجود عفرا کے چہرے پر ایک اطمینان ہے۔ اس کے زخمی چہرے پر اہل پاکستان کی محبتوں نے ایک عجیب نشاط اور اطمینان طاری کر رکھا ہو گا۔ یقینا ایسا ہی ہو گا۔
ہے تبسم ہمارے لب پہ ابھی
ہم کہاں زندگی سے ہارے ہیں