بھارت- توہم پرستی کا گڑھ
مون سون گزرتا جا رہا تھا۔ ابھی تک ڈھنگ کی ایک بھی بارش نہیں ہوئی تھی۔ کبھی کبھی ہلکے پھلکے بادل آتے اور کچھ ہی دیر میں سروں کے اوپر سے گزر جاتے۔ سورج مسلسل آگ برسارہا تھا۔ سارا دن لوگوں کا حبس سے برا حال رہتا۔ شام ہوتی تو سکون ہوتا۔ پانی کی شدید کمی ہو گئی تھی۔ فصلیں خشک ہوتی جا رہی تھیں۔ جانوروں کو چارہ ڈالنا بھی ممکن نہ رہا تھا۔ لوگ اپنی اپنی سطح پر کئی منتیں مانگ رہے تھے لیکن کسی کی بھی منت پوری نہیں ہو رہی تھی۔ کچھ لوگ علاقے کے بڑے مندر کے پنڈت کے پاس گئے اور اپنا مسئلہ گوش گزار کیا۔ پنڈت نے مسئلے پر غور کے بعد لوگوں کو ایک نر اور ایک مادہ مینڈک لانے کا کہا۔ مقررہ دن آ گیا اور لوگ گروہوں کی شکل میں متعین میدان میں پہنچنے لگے۔ جب سارے لوگ آ چکے توپنڈت نے ان سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ بارش کا دیوتا ان سے سخت ناراض ہے ۔ جسے خوش کئے بغیر بارش نہیں ہو سکتی۔ بارش کے دیوتا کوخوش کرنے کے لئے مینڈکوں کی شادی کرانا بہت ضروری ہے۔ لوگ اس پر پہلے ہی آمادہ نظر آتے تھے۔ لوگوں کے سامنے نراور مادہ مینڈکوں کو نہلایا گیا‘ خوب سجایا گیا اور خوشبوئیں لگائی گئیں۔ مادہ مینڈک کو سندور لگا کر دلہن بنایا گیا۔ پنڈت نے مذہبی رسومات کے مطابق شادی کا فریضہ سر انجام دیا۔ وہاں موجود لوگوں نے ڈھول باجوں کے ساتھ خوب بھنگڑا ڈالا۔ اس کے بعد بارش کیلئے اجتماعی اور جامع دعا کی گئی۔
یہ سب کچھ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت کی ریاست آسام میں ہوا۔ خشک سالی نے اس ریاست کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور لوگ بارش کے لئے طرح طرح کے ٹونے ٹوٹکے کر رہے ہیں لیکن کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ آسام شمال مشرقی انڈیا میں واقع ہے جو اپنے جنگلی حیات‘ چائے کے باغات اور تاریخی مقامات کی وجہ سے مشہور ہے۔ گوہاٹی اس ریاست کا سب سے بڑا شہر ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ ترقی کرنے والے پہلے سو شہروں میں شامل ہے۔ معمول کے لحاظ سے یہ ایک مون سونی علاقہ ہے جہاں سردیوں کے چار مہینوں کے علاوہ سارا سال بارش ہوتی رہتی ہے۔ سردیوں کا موسم آخر اکتوبر سے آخر فروری تک رہتا ہے۔ جب درجہ حرارت چھ ڈگری سنٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ مارچ سے جون تک گرمی ہوتی ہے اور درجہ حرارت اڑتیس ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے۔ وقتاً فوقتاً ہونے والی بارشوں کی وجہ سے درجہ حرارت قابو میں رہتا ہے۔ گرمیوں میں دوپہر کے وقت آندھی اور طوفان کا آنا معمول ہے اور سیلاب کا خطرہ بھی منڈلاتا رہتا ہے۔ تاہم یہ ساری صورتحال اس سال دیکھنے میں نہیں آئی۔ لوگ بارش کے لئے ترستے رہے اور موسم سرما بھی شروع ہو گیا۔ مینڈکوں کی شادی بھی ہندو¶ں کے بارشی دیوتا کو راضی نہ کر سکی۔
جہاں تک جانوروں کی شادیوں کے رواج کا تعلق ہے تو یہ ہندوستان میں بہت پرانا ہے۔ ۱۸۵۶ءسے ۱۸۷۰ءتک بھارتی قدیم ریاست بڑودہ کا راجہ فاختا¶ں کی شادی کروانے کا بہت شوقین تھا۔ اسے فاختائیں پالنے کا بہت شوق تھا اور سال میں تین بار وہ ان کی شادی کرواتا تھا۔ شادی کے لئے نر اور مادہ فاختہ کو چنا جاتا اور سونے‘ چاندی اور ہیرے جواہرات سے سجے ہاتھی پر بٹھا کر ان کو شادی کے لئے لایا جاتا۔ یہ شادی شاہی خاندان کے افراد کی شادی جیسی ہی شاہانہ ہوتی۔ شادی کے بعد معززین ریاست کے لئے پرتکلف دعوت دی جاتی جس میں شریک ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو کوئی نہ کوئی مہنگی چیز تحفے میں ضرور دیتا۔ اس کے کئی مقاصد ہوتے ہوں گے۔ ایک تو شاید یہ ہو کہ فاختہ چونکہ امن کی علامت کے طور پر جانی جاتی ہے اس لئے سال میں تین بار ان کی شادیاں کروا کر امن کو پروان چڑھنے کا بھرپور موقع دیا جاتا ہو۔ یا پھر راجہ صاحب ان کی شادیوں میں ملنے والے ”نیوندروں“ مطلب مہنگے تحائف یا رقم سے اپنا سرکاری یا ذاتی خزانہ بھرتے ہوں۔ یا پھر راجہ صاحب دماغی طور پر فارغ ہوں اور اس طرح کی بیوقوفانہ حرکتیں کرتے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے‘ اور جو زیادہ قرین قیاس بھی لگتا ہے کہ راجہ صاحب کو خواب میں کوئی اشارہ ملتا ہو اور امن دیوتا فاختا¶ں کی شادیوں سے ہی خوش ہوتا ہو۔ بہرحال مقصد کوئی بھی ہو یہ بات واضح ہے کہ اپنے مذہبی دیوتا¶ں سے کوئی سہولت حاصل کرنے کے لئے انہیں کسی نہ کسی جانور کی شادی کروانا پڑتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭