معاشرے میں آج نفاذ شریعت کے حوالے سے فضا اور ماحول جس قدر حساس ہے اس کا تقاضا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار واضح اور شفاف ہو کونسل کے اراکین اور چیئرمین کی تعیناتی کےلئے علمی ثقاہت اور کردار کے حوالے سے معیار قابل قبول اور اخلاقی تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ قائداعظم نے سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں مسلمان اذہان کو اسلامی معیشت کے قابل عمل ہونے کو سامنے لانے کی خواہش کی تھی تو علامہ محمد اسد جیسے نابغہ کو دستور اسلامی کے خاکے تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی تھی انہیں وزارت خارجہ میں اہم ذمہ داری پر متمکن کیا گیا تھا افسوس قادیانی وزیر خارجہ نے لیاقت علی خاںکی شہادت کے بعد اس نابغہ روز گارکو اتنا زیادہ پریشان کیا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر چلا گیا تھا۔کاش! ایسا نہ ہوتا اگر ایسا نہ ہوتا تو قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے اسلامی پاکستانی دستور و آئین بنانے کے خواب شرمندہ تعبیر ہو جاتے۔
اس تحریر کا باعث اردو قومی معاصر کے احمد حسن کی 10 نومبر کو شائع شدہ خبر ہے۔ ان کے بقول جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے چار اراکین اسمبلی جن میں دو قومی اور دو صوبائی اراکین ہیں کے نااہل ہونے کا خطرہ ہے۔ اس خبر نگار نے ایک دینی سیاسی جماعت کے اراکین کے جعلی ڈگری رکھنے کے معاملے کو اخلاقی معیار پر پیش کر کے اس جماعت کے حوالے سے تاسف کا اظہار کیا ہے۔ افسوس اور صدمے کی بات یہ ہے کہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خاں شیرانی کا تذکرہ بھی جعلی ڈگری کی وجہ سے نااہل ہونے کے خطرے سے دوچار اراکین قومی اسمبلی میں موجود ہے۔افسوس اور صدمے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر الزام سچا ہے تو مولانا جمعیت العلمائے اسلام بلوچستان کے فیصلہ ساز کردار بھی رہے ہیں۔ عام سا سیاستدان اگر جعلی ڈگری کے ذریعے سیاست میں ”مقام“ حاصل کرتا ہو تو وہ معیوب اور قابل نفرت کہلاتا ہے چہ جائیکہ ایک دینی جماعت کا صوبائی امیر یہ ناپسندیدہ کام کرے اور پھر بھی وہ رکن سینٹ یا رکن قومی اسمبلی رہے؟ اس پر طرفہ تماشا ہو جائے کہ یہی مولانا ماشاءاللہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا آئینی منصب بھی رکھتے ہوں۔ ہمارے کالم نگار اثر چوہان کی اطلاع کے مطابق مولانا شیرانی کواگلی تین سالہ مدت کےلئے بھی چیئرمین برقرار رکھنے کا مطالبہ وزیراعظم نواز شریف کے سامنے جمعیت العلمائے اسلام (ف) پیش کر چکی ہے۔ ہم افسوس اور صدمے سے دوچار ہیں کیونکہ ہم الحمدللہ ثقہ علمائے کرام کے شاگرد ہیں۔ ابتدائی عمر میں درس نظامی کا نصاب باقاعدہ دینی مدرسے کی چٹائیوں پر بیٹھ کر حاصل کیا۔ جب دینی و شرعی علوم میں مطلوبہ معیار کے امتحانات پاس کر لئے تو گریجوایشن کے لئے کالج گئے اور بعد ازاں عرب اساتذہ کی شاگردی میں ایم اے عربی کیا اور مسلم لیگ کا حصہ رہے تھے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کے ساتھ ساتھ ہم مولانا فضل الرحمن کے علم و فضل کے معترف ہیں۔ مولانا شیرانی بطور سیاستدان ہر اعتبار سے کامیاب رہے ہیں مگر ان کی چیئرمین کے منصب پر فائز ہونے کی شدید خواہش سے پی ڈی ایف کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بھی بہت زیادہ تنگ رہی تھیں۔ اس عہد میں یہ منصب حامد ناصر چٹھہ کی خواہش پر ایک مسلم لیگی علم دوست کو دیئے جانے کا معاملہ طے ہو گیا تھا مگر مولانا شیرانی کی ضد کی وجہ سے حکومت بے بس تھی بعد ازاں اقبال احمد خاں تو محض حسن اتفاق سے چیئرمین بنائے گئے تھے گزشتہ عہد میں جب صدر زرداری کی حکومت تھی تو مولانا شرانی کو بے بسی اور بلیک میلنگ کی وجہ سے چیئرمین بنایا گیا تھا۔ زرداری حکومت انہیں صرف ایک سال کےلئے یہ منصب دینے پر تیار ہوئی۔ تو بلیک میلنگ کے ذریعے تین سالہ مدت حاصل کی گئی تھی۔ ہمیں ہر گز اعتراض نہیں کہ میاں نواز شریف مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو وزارتیں دیں اور اتحادی بنائیں مگر ادب سے التجا ہے کہ چیئرمین کا عہدہ بے شک کسی دیوبندی عالم دین ہی کو دے دیں مگر مولانا شیرانی کو ہرگز نہیں۔ مولانا پہلے خود کو اخلاقی معیار پر پورا اترتا ثابت کریں ۔ جعلی ڈگری کے الزامات جو باقاعدہ انہی کے ہم مسلک اور جمعیت العلمائے اسلام نظریاتی کے افراد نے ان پر لگائے ہوئے ہیں ان سے خود کو باضابطہ طور پر بری الذمہ ثابت کر دیں پھر بے شک انہیں وفاقی وزیرکا منصب بھی دے دیں مگر چیئرمین کا منصب تب بھی ہرگز نہیں۔ بادل نخواستہ اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے اور یہ بھی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ علم و عرفان اور آئینی منصب کس گرداب اور بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38