ہندوستان میں تو ان پاکستان کے محسنوں کے بارے میں منفی تحقیق کا عمل جاری ہے تاکہ وقت آنے پر ہندو مہاراج یہ کہہ سکیں کہ تقسیم ہند تو ایک ہنگامی مسئلہ تھا۔اقبال کا مسلم قومیت کا نظریہ حقیقت سے بعید تھا کہ ہند کے سارے مسلمانوںپر لاگو نہیں ہوتا اور قائداعظم سیکولر مزاج کے سیاست دان تھے ہماری ثقافت اور تہذیب تو ایک ہے بزرگوں کی تلخ مزاجی سے ملک کا بٹوارہ ہوگیا آﺅ پھر سے ایک ہوجائیں (خدا نہ کرے) پاکستان کے دانشور اقبال کی اور قائداعظم کی کردار کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو یہ کہاں کا انصاف ہے یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس ہنڈیا میں کھانا اسی میں چھید کرنا۔ ارباب حکومت کو اس گھناﺅنی سازش کا فوری نوٹس لیناچاہئے۔اقبال کے مسلم قومیت کے نظریہ ہی کی بنا پر پاکستان کا خطہ وجود میں آیا قائداعظم کے بارے میں مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے کہ وہ سیکولر تھے اور پاکستان میں سیکولر نظام حکومت چاہتے تھے۔ان کی تمام تقاریر اور بیانات کا ریکارڈ اگر اکٹھا کیاجائے تو یہ بات واضح ہوجائیگی کہ وہ اس مملکت خداداد میں اسلامی نظام حکومت چاہتے تھے جو قرآن و سنت پر مبنی ہوگا۔
محقق موصوف کو لگتا ہے کہ مذہب سے چڑ ہے حالانکہ وہ مسلمان ابنِ مسلمان ہیں۔ہاں البتہ وہ مذہب کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں تبھی تو انہیں اقبا ل کا یہ شعر نظروں میں کھٹکتا ہے....
جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اسی لیے وہ سیکولر نظر آتے ہیں اور سیکولر نظام حکومت کے دلداہ ہیں۔اس طرح انہیںکانگرس اور مہاسبھا کی متحدہ وطنی قومیت خوب لگتی ہے۔وہ ابو الکلام،گاندھی،نہرو، پٹیل اور مولانا حسین احمد مدنی کی زبان بولتے ہیں اور اسلامی قومیت سے بیزارنظر آتے ہیں۔اقبال و قائداعظم کے پاکستان میں ان کا رہنا کیسا لگتا ہے۔یہ فیصلہ وہ کرسکتے ہیں۔ متنازعہ کتاب کے صفحہ نمبر 200 پر ارشاد فرماتے ہیں۔
حالانکہ اقبال نے مذہب اور سیاست دونوں کی بات کی یعنی مذہب اخلاقی نصب العین اور سیاسی نصب العین دونوںکی بات کرتا ہے۔اجتماعی سیاسی نصب العین کے بغیر اسلام محض خانگی اور عقیدے کی انفرادی رسم تک محدود ہوکر بے اہمیت ٹھہرتا ہے ارشاد اقبال ہے....
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
اسی مذہب یعنی اسلامی قومیت یا مسلم قومیت کی بنا پر اقبال نے خطبہ الہ آباد پیش کیا اور قرارداد پاکستان لاہور کے بعد نتیجتاً پاکستان کا حصول بھی اسی نظریہ کی بنا پر عمل میں آیا۔ اس کھلی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔اقبال ایک مسلم خطہ کی نشاندہی کرکے اس کے حصول کیلئے ایک بے لوث ،مخلص ان تھک اور لائق سیاست دان یعنی قائداعظم کو آگے لایا۔
مولف مذکور نے ” علامہ اقبال۔ ایک ناکام سیاست دان سے متعلق بات میں محمد احمد خاں کی کتاب ”اقبال کا سیاسی کارنامہ “ سے آٹھ حوالے دئیے ہیں جن سے ان کی مطلب بر آری نکلتی ہے مگر دیگر مثبت حوالوں سے جان بوجھ کر گریز کیا گیا جن سے اقبال کی اسلامی اٹھان اور مسلم قومیت کا ثبوت ملتا ہے اگر جوان محقق ذہن و دل کی آنکھیں بند نہ کرلیتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ ”اقبال کا سیاسی کارنامہ “ تو سراسر اقبال کی مسلم قومیت کا نچوڑ ہے۔ آئیے اب ”اقبال کے سیاسی کارنامے سے ایسے چند اقتسابات لیتے ہیں جن سے ان کی مسلم قومیت سے متعلق ثبوت ملتے ہیں۔
” کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام کو ایک اخلاقی نصب العین کی حیثیت سے تو برقرار رکھاجائے اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اس کو نظر انداز کرکے قومیت کا نصب العین اختیار کرلیاجائے جس میں مذہبی رجحانات کو کوئی عملی حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔یہ سوال ہندوستان کیلئے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مذہب خانگی انفرادی تجربہ سے یہ بیان کسی یورپ نژاد کی زبان پر تعجب خیز نہیں معلوم ہوتا....لہٰذا اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے اپنے پیدا کردہ عمرانی نظام سے طبعی طور پر وابستہ ہے ایک کے انکار سے دوسرے کا انکار لازم آتا ہے۔اس لیے اگر قومیت کی بنیاد پر نظام سیاست کی تشکیل کے معنی اسلامی اصول اتحاد کو پس پشت ڈالنے کے ہیں تو ایسا نظام سیاست کسی مسلمان کے وہم و گمان میں نہیں آسکتا۔یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو بحالت موجود مسلمانان ہند سے راست متعلق ہے ۔ص۔39-38
مندرجہ بالا بیانِ اقبال سے حسب ذیل نقاط نکلتے ہیں۔
1۔مذہب اسلام ایک خانگی انفرادی معاملہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کا ایک سماجی نظام ہے۔
2۔اس کے نصب العین اور وطنی قومیت کے نصب العین میں پر خاش ہے۔
3۔ ہندوستان کے مسلمان اگر وطنی قومیت کے نصب العین کو قبول کرلیںتو لازماً انہیں اسلام کے سیاسی نصب العین کو پس پشت ڈالنا پڑے گااور اسلام کے سیاسی نصب العین کو پس پشت ڈالنے کے معنی ہیں کہ خود اسلام سے انکارکردیاجائے۔
گویا اقبال کو معلوم ہوگیا کہ مغربی نظام زندگی کا نصب العین وطنی قومیت ہے اور اس کے برعکس اسلام نظام حیات کا سیاسی مطمح نظر اخوت بنی آدم یا اخوت اسلامیہ ہے۔بیسوی صدی کی ابتدا میں اقبال متحدہ وطنی قومیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اس واضح حقیقت کو ”اقبال کا سیاسی کارنامہ “ کا مصنف یوںبیان کرتا ہے” یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس زمانہ میں ہندوستان کے اندر جتنے سیاسی زعما کارکن اور مفکر نظر آئے ہیں ان سب میں اقبال ہی غالباً ایک ایسا منفرد شخص ہے جو متحدہ قومیت کی بنیاد پر قومیت کی تشکیل کے خلاف پورے زور و شور سے اپنی آواز بلند کرتا ہے “ صفحہ43
” اقبال ہندوستان کا پہلا مفکر ہے جس نے علیحدگی پسند تحریک کی ابتدا ہی علی الاعلان اس امر کا اظہار کردیا کہ متحدہ قومیت اور مسلم قومیت کے آپس میں کوئی پیوند نہیں لگایاجاسکتا۔ا ن دونوں میں بہت ہی گہرا تضاد موجود ہے۔اس نے وطنی قومیت کے متعلق آغاز ہی میں کہہ دیا تھا کہ
قومیت اسلام کی جڑ کشی ہے اس سے ” ایضاً ص 44
اقبال غور و فکر اور تدبر و تفکر کے بعد متحدہ وطنی قومیت سے مسلم قومیت کی طرف آگے اور اس مسلم قومیت کی بنیاد مذہب اسلام تھا۔
” اس کی فکر کے اس تغیر نے ہندوستان میں مسلم قومیت کی نشوونما کیلئے ایک فلسفیانہ اساس فراہم کردی۔اس کے ملی نغموں سے مسلم ” فرقہ“ میں قومیت کا شعور بھڑک اٹھا اور اس کے تفکر کے ان خدوخال سے دو قومی نظریہ کا وہ نقش ابھرا جس نے بالآخر پاکستا ن کا نام پالیا۔ایضاً ص44
نہرو رپورٹ کے بعد برصغیر کے مسلمانوںکی آنکھیں کھل گئیں ان کو دی ہوئی سیاسی رعایات بھی چھین لی گئیں،مثلاً میثاق لکھنﺅ کے تحت دیا جداگانہ حق انتخاب واپس لے لیا گیااقبال شعوری اور لاشعوری طورپر سمجھ رہے تھے کہ ہندو مفکرین مسلمانوںکا سیاسی تشخص ختم کرکے ان کو گمنامی کی موت مارناچاہتے ہیں۔وہ محض ٹیبل ٹاک اور زبان کلامی مسلمانوں کو ظاہری بہلاوے دے رہے تھے آخر کار ہندو بنئے کی بد باطنی اور اسلامیانی ہند بد اندیشی پر واضح ہوگئی۔وفات سے کچھ عرصہ پہلے مولانا حسین احمد مدنی سے ان کا ٹاکرا ہوگیا۔مسئلہ پھر متحدہ وطنی قومیت اور مسلم قومیت کا تھا۔مولانانے فرمایا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔جب اخبار میں ان کی تقریر چھپی تو اقبال تک خبر پہنچ گئی۔انہوں نے اپنی بیماری،ناتوانی اور صنفِ بصارت کے باوجود کسی دوسرے سے مضمون چھپوا دیا کہ غلط ہے کہ قومیں مذہب کی بنیاد پر بنتی ہیں۔
نہرو رپورٹ کی اشاعت کے بعد انہیں(اقبال کو) پختہ یقین ہوگیا کہ ” ہندی قومیت“ کے بجائے ”مسلم قومیت“ کا جو نظریہ انہوں نے 1908 میں قائم کیا تھا۔ہندوستانی سیاست کی کسوٹی پر گھسے جانے کے بعد وہ عملاً صد فی صد درست ثابت ہوچکا تھا۔ایضا ص194
لگتا ہے کہ نوجوان محقق خاور نوازش نے کتاب لکھتے وقت اپنا ذہن و فکر پوری طرح خلوص کے ساتھ اقبال کے بارے میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے کسی خاص سمت سے تکنیکی ہدایات وصول کرنے کے بعد تعصب سے بھرا ہوا مواد اچھالا ہے وہ اپنی تحریری اقبال میں اقبال کے لاشعور کو پرکھ رہے ہیں حالانکہ انشاءاللہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ وہ ابھی اس عمر میں شعور اقبال تک بھی نہیں پہنچے۔چہ جائیکہ لاشعور اقبال کی بات ہو۔اقبال کی شعوری اور لاشعوری گہرائیوں اور رفعتوں کو ماپنا ہر کسی کا کام نہیں۔ وہ انہیں رجعت پسند انسان کہتے ہیں اور قائداعظم کو ایک سیکولر سیاست دان دونوں باتیں بنیادی طورپر غلط ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ ” اقبال کا سیاسی کارنامہ “ کا مصنف اس بارے میں کیا کہتا ہے۔
وہ سیاست کے میدان میں کانگرس کی متحدہ وطنی قومیت کے خلاف نعرہ لگاتے ہوئے اور مسلم قومیت کا آواز بلند کرتے ہوئے داخل ہوئے اور مولانا حسین احمد مدنی کے نظریے ”ملت از وطن اسلامیہ“ کے پرخچے اڑاتے ہوئے اور ”قومیت از دین است“ کا بلند کرتے ہوئے رخصت ہوئے“۔ ص44
متنازعہ کتاب میں یہ بھی کہا گیا (صفحہ173,174) کہ اقبال نے مملکت کا تصور1928ءمیں آل انڈیا مسلم کانفرنس میں دیا اور وہی تصور خطبہ الٰہ آباد میں دیا۔اس طرح الٰہ آباد میں اقبال فکری سطح پر مسلم کانفرنس کی قرارداد پر ہی ٹھہری ہوئے ہیں۔حالانکہ دونوں مواقع کے لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔مسلم کانفرنس میں اقبال نے اسلامی مملکت کا فقط ہیولیٰ دیا تھاجس کے نقوش قطعاً واضح نہیں تھے مگر الٰہ آباد کا خطبہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر دیا گیا جو ملک گیر تاثر کا باعث بنا۔ نیز اس خطبہ میں اسلامی مملکت کا جغرافیہ،مقصداور نصب العین بھی واضح کردیا گیا۔ایسا خطہ جہاں تمدن اسلامی کا فروغ ہو۔ ڈاکٹر ایوب صابر نے خطبہ الٰہ آباد کے اہم نکات حسب ذیل بیان ہیں۔
1۔ اقبال بیسوی صدی میں اسلامی تصور قومیت کے سب سے بڑے مفسر ہیں۔
2۔ اسلام عیسائیت کی طرح کوئی پرائیویٹ دین نہیں ہے۔اس کا اپنا ایک اجتماعی سیاسی نظام ہے جو کسی قومی( ہندی وطنی قومیت پر مبنی) نظام کے تحت بروئے کار نہیں آسکتا۔
3۔ اقبال نے شہادت دی کہ ایک مربوط و مضبوط مسلم ریاست شمالی مغربی ہند کے مسلمانوں کا آخر کار مقدر ہے۔
4۔یہ تصور دیا گیا کہ اسلام پر ملوکیت کی جو چھاپ ہے اس سے نجات حاصل کی جائیگی۔ حقیقی اسلامی تمدن کا احیا ہوگیا اور اس کی روح کا رابطہ عصر جدید کی روح سے ممکن ہوگا۔
5۔ اقبال نے وضاحت کی کہ مقتدر اور آزاد مسلم ریاست کا حصول عزم پر منحصر ہے۔ایک ایسی قوت ارادی جو ایک مقصد پر مرکوز ہو اقبال نے کہا کہ مستقبل قریب میں ہماری ملت کو ایک آزادانہ راہ عمل اختیار کرنا پڑے گا۔(تصور پاکستان صفحہ160)
علامہ اقبال نے سید نذیر نیازی کے نام اپنے مکتوب جنوری 1931ءمیںیہ لکھا ”اسلامی ریاست ایک نصب العین ہے “
نوجوان محقق نے یہ بھی لکھا کہ اقبال نے مسلم اکثریتی صوبوں کو اسلامی ریاست بنانے کا تصور دیا مگرہندوستان کے باقی صوبوں میں بکھرے ہوئے۔ مسلمانوں کے بارے میں نہ سوچا تو حقیقت یہ ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں کو اسلامی ریاست بنانے سے ان علاقوں کے مسلمان ہندو کی غلامی سے آزاد ہوجائیںگے۔ پاکستان بنا اور بعد میں ایٹمی قوت بن گیا۔ تمام مسلمان ملکوں میں یہ واحد ایٹمی قوت ہے ہندوستان میں بکھرے ہوئے باقی مسلمانوں کی حفاظت کیلئے لیاقت نہرو معاہدہ ہواتھا جس کے تحت دونوں ملکوں کی اقلیتوں کی حفاظت کرنا مقصود ہے۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی ہندوستان پر دباﺅ ڈالا جاسکتا کہ وہ مسلم اقلیت کی جانی و مالی حفاظت کرے۔
آخر میں گزارش ہے کہ وزارت قومی ورثہ و یکجہتی حکومت پاکستان مقتدرہ قومی زبان سے پوچھے کہ سرکاری رقم پر اقبال کے خلاف کتاب کیوں چھپوائی گئی۔متعلقہ پارٹی سے اشتراک و تعاون کیا گیا۔وضاحت طلب کی جائے اور یہ کتاب ناپسند ید ہ قرار دیکر ضبط کی جائے۔(آخری قسط)
٭....٭....٭....٭....٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38