گذشتہ روز ایک قلم کار نے مکرر ارشاد فرمایا کہ ”چونسٹھ برسوں میں اس ملک کے حکمرانوں نے سوائے لوٹ مار کے کچھ نہیں کیا“ اگر تو میرے یہ محترم قلم کار اقتدار پر ناجائز قبضے اور اقتدار بچانے کےلئے جائز سیاسی جدوجہد کو بھی”لوٹ مار“ کا حصہ سمجھتے ہیں تو اور بات ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چونسٹھ برسوں میں قائداعظم سے لے کر محمد خان جونیجو تک کوئی ایسا سیاسی یا فوجی حکمران دکھائی نہیں دیتا جس نے مالی لوٹ مار کی ہو، اتنی کہ کوئی دوسرے بڑے نمبر کا دولت مند پاکستانی بن گیا ہو تو کوئی تیسرے بڑے نمبر کا۔ ویسے تو ”پاکستانی“ بھی اب یہ نام کے ہیں۔ اقتدار میں نہ ہوں تو پاکستان انہیں کھانے کو دوڑتا ہے اور اقتدار میں ہوں تو پاکستان کو یہ کھانے کو دوڑتے ہیں اور آدھے سے زیادہ پاکستان کھا بھی چکے ہیں، جو بچ گیا ہے اسے بھی اپنے ”پاپی پیٹوں“ میں اتارنے کی تیاریاں مکمل کئے بیٹھے ہیں اور اگر سترہ کروڑ بھیڑ بکریاں اسی طرح سوئی رہیں تو عین ممکن ہے باقی کا پاکستان بھی ان کے پاپی پیٹوں میں اتر جائے! (خدانخواستہ)
بات قائداعظم سے شروع کرتے ہیں کوئی بتائے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی زندگی کا سوائے اس کے کوئی مقصد تھا کہ اپنے ملک کے عوام کو ترقی کی ایک ایسی منزل کا راستہ دکھا دیں جہاں کھڑے ہو کر وہ دنیا پر ثابت کر سکیں کہ مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیاجائے تو وہ اپنی محنت اور محبت سے ویرانوں کو گلستانوں میں بدل سکتے ہیں؟ کوئی بتائے لیاقت علی خان نے کتنی لوٹ مار کی کتنی جائیداد بنائی، ملکی اور غیر ملکی بنکوں میں اس کے کتنے اکاﺅنٹس تھے؟
ذوالفقار علی بھٹو.... ایسا سیاسی حکمران جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ زندہ رہتا تو ملک کی تقدیر بدل دیتا۔ بدقسمتی سے اس ملک کے عوام کو اس کی یاد بھی اس کے جانے کے بعد ہی آئی۔ اسے کھونے کے بعد پتہ چلا پیچھے تو صرف”کچرا“ ہی رہ گیا ہے۔ وہ کوئی کنگلا نہیں تھا مگر کوئی ایک شخص نہیں جو کہہ سکے حکمران بننے کے بعد اس کی زمینوں اور جاگیروں میں اضافہ ہوا۔
جنرل ایوب کی طرح جنرل ضیاءالحق کا اقتدار بھی ناجائز تھا۔ اسے بھی بدترین ڈکٹیٹر کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے اس نے بھی کئی جائز ناجائز حربے استعمال کئے۔ اس پر بھی کئی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اس ملک کو ہیروئن اور کلاشنکوف کے تحفے اسی نے دیئے نیز اسلام کو ذاتی اور اقتداری مفادات کےلئے جتنا اس نے استعمال کیا کوئی سچا مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس کے دور میں لوگ کہتے تھے۔ اس ملک کو ”ضیاء بیطس“ ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ اسے مرد مومن مرد حق اور کچھ ”مردے مومن مردے حق“ کہتے تھے ممکن ہے اس کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں نے کچھ کرپشن بھی کی ہو مگر یہ طے ہے اتنی”انھی“ انہوں نے بھی نہیں ڈالی جتنی”انھی“ آج کے حکمرانوں کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں نے ڈالی ہوئی ہے۔ کم از کم کرپشن لوٹ مار اور مالی بددیانتیوں کے حوالے سے اس کی اپنی ذات پاک تھی۔ ایوب خان پر بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں ضیاءالحق کے بدترین دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ دوران اقتدار اس نے کوئی جائیداد بنائی نہ اس طرح فیکٹریاں اور ملیں لگائیں جس طرح اس کے ساتھ جڑے ہوئے کچھ لوگوں نے لگا کر سیاست میں پہلی بار بددیانتی کے عمل کو اس طرح متعارف کروایا کہ پھر یہ ایک روایت بن کر رہ گئی جس کے نتیجے میں آج کی سیاست محض تجارت بن کر رہ گئی ہے۔ وہ جب تک اقتدار میں رہا اور اولاد کو سیاست سے دور ہی رکھا۔ اس کی بیگم بال بچوں یا بہن بھائیوں کی اجازت نہیں تھی وہ اس کی حکمرانی میں دخل دیں یا اس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں۔کیا آج کے حکمرانوں کی آل اولاد کے حوالے سے ایسا تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بڑے، بزرگوں کی حکمرانی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں یا اس میں مداخلت نہ کریں؟ حکمران اعظم کے صاحبزادوں کے حوالے سے جو کہانیاں عوام میں گردش کر رہی ہیں سن کر متلی آتی ہے کہ کیسے کیسے حکمران اور ان کی اولادیں ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں!
بات قائداعظم سے شروع کرتے ہیں کوئی بتائے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی زندگی کا سوائے اس کے کوئی مقصد تھا کہ اپنے ملک کے عوام کو ترقی کی ایک ایسی منزل کا راستہ دکھا دیں جہاں کھڑے ہو کر وہ دنیا پر ثابت کر سکیں کہ مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیاجائے تو وہ اپنی محنت اور محبت سے ویرانوں کو گلستانوں میں بدل سکتے ہیں؟ کوئی بتائے لیاقت علی خان نے کتنی لوٹ مار کی کتنی جائیداد بنائی، ملکی اور غیر ملکی بنکوں میں اس کے کتنے اکاﺅنٹس تھے؟
ذوالفقار علی بھٹو.... ایسا سیاسی حکمران جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ زندہ رہتا تو ملک کی تقدیر بدل دیتا۔ بدقسمتی سے اس ملک کے عوام کو اس کی یاد بھی اس کے جانے کے بعد ہی آئی۔ اسے کھونے کے بعد پتہ چلا پیچھے تو صرف”کچرا“ ہی رہ گیا ہے۔ وہ کوئی کنگلا نہیں تھا مگر کوئی ایک شخص نہیں جو کہہ سکے حکمران بننے کے بعد اس کی زمینوں اور جاگیروں میں اضافہ ہوا۔
جنرل ایوب کی طرح جنرل ضیاءالحق کا اقتدار بھی ناجائز تھا۔ اسے بھی بدترین ڈکٹیٹر کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے اس نے بھی کئی جائز ناجائز حربے استعمال کئے۔ اس پر بھی کئی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اس ملک کو ہیروئن اور کلاشنکوف کے تحفے اسی نے دیئے نیز اسلام کو ذاتی اور اقتداری مفادات کےلئے جتنا اس نے استعمال کیا کوئی سچا مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس کے دور میں لوگ کہتے تھے۔ اس ملک کو ”ضیاء بیطس“ ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ اسے مرد مومن مرد حق اور کچھ ”مردے مومن مردے حق“ کہتے تھے ممکن ہے اس کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں نے کچھ کرپشن بھی کی ہو مگر یہ طے ہے اتنی”انھی“ انہوں نے بھی نہیں ڈالی جتنی”انھی“ آج کے حکمرانوں کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں نے ڈالی ہوئی ہے۔ کم از کم کرپشن لوٹ مار اور مالی بددیانتیوں کے حوالے سے اس کی اپنی ذات پاک تھی۔ ایوب خان پر بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں ضیاءالحق کے بدترین دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ دوران اقتدار اس نے کوئی جائیداد بنائی نہ اس طرح فیکٹریاں اور ملیں لگائیں جس طرح اس کے ساتھ جڑے ہوئے کچھ لوگوں نے لگا کر سیاست میں پہلی بار بددیانتی کے عمل کو اس طرح متعارف کروایا کہ پھر یہ ایک روایت بن کر رہ گئی جس کے نتیجے میں آج کی سیاست محض تجارت بن کر رہ گئی ہے۔ وہ جب تک اقتدار میں رہا اور اولاد کو سیاست سے دور ہی رکھا۔ اس کی بیگم بال بچوں یا بہن بھائیوں کی اجازت نہیں تھی وہ اس کی حکمرانی میں دخل دیں یا اس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں۔کیا آج کے حکمرانوں کی آل اولاد کے حوالے سے ایسا تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بڑے، بزرگوں کی حکمرانی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں یا اس میں مداخلت نہ کریں؟ حکمران اعظم کے صاحبزادوں کے حوالے سے جو کہانیاں عوام میں گردش کر رہی ہیں سن کر متلی آتی ہے کہ کیسے کیسے حکمران اور ان کی اولادیں ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں!