عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کیلئے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر قرض کی قسط کی منظوری دے دی۔ بورڈ نے پاکستان کیلئے اضافی پروگرام کی بھی منظوری دی ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے پروگرام کیلئے بھی رقم فراہم کی جائیگی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے قرض پروگرام کے تحت پہلے جائزے کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت ایک ارب 40 کروڑ ڈالر فوری طور پر پاکستان کو جاری کر دیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کی جانب سے ’’ریزیلینس فیسلٹی‘‘ کے تحت مدد کی درخواست کو بھی منظور کر لیا ہے، جس کے تحت پاکستان کو مزید ایک ارب ڈالر مل سکیں گے۔
اس سے قبل بھارتی حکومت کے ایک عہدیدار کی جانب سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ بھارت نے آئی ایم ایف سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو دی گئی مالی امداد کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قسط کی منظوری کے بعد بھارت کو ایک اور محاذ پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ایسے وقت میں جب بھارت نے اپنی چانکیائی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو ایک خط کے ذریعے پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد کا ازسرِ نو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا تاکہ پاکستان کی یہ امداد روکی جا سکے، پاکستان نے بھارت کو اس محاذ پر بھی شکست دی اور آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب ڈیل کے ذریعے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی قسط کی منظوری حاصل کر لی۔ بلاشبہ بھارتی ہتھکنڈوں کے باوجود یہ پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ یہ تو بھارت ہے، جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے، مگر پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کی جانب سے بھی محض سیاسی مفادات کے لیے آئی ایم ایف سے پاکستان کو پروگرام نہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔حکمرانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی یہ رقم بالآخر قرض ہے، جسے غریب اور ناتواں پاکستانی قوم کو سود سمیت واپس کرنا ہے، جو پہلے ہی بدترین مہنگائی کے دو بے رحم پاٹوں میں پس رہی ہے۔ اس نئے قرض سے جہاں ملک بھر میں مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا، وہیں عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے بارہا اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ آخری پروگرام ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پروگرام کو آخری بنانے کے لیے کوئی قابل ذکر اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ ہمیں بہرصورت خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم معاشی طاقت نہیں بن سکتے۔ کسی بھی طور عالمی مالیاتی اداروں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔بجٹ کی آمد آمد ہے۔ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینا وزیراعظم کی اولین ترجیح ہے، لیکن عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر آنے والا قومی بجٹ بھی آئی ایم ایف کے تابع ہے تو کیا اس میں عوام کو ریلیف دیا جا سکے گا؟ اس لیے جب تک آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جائے گا، نہ ملک کی معیشت بہتر ہو سکے گی اور نہ ہی عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری آئے گی۔
آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط کی منظوری
May 11, 2025