’’تسنیم‘‘ اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے بعد ارشاد صاحب اسلامیہ کالج قصور میں لیکچرار ہوگئے جہاں انہوں نے تاریخ اور علوم اسلامی کے مضامین پڑھائے۔ انہوں نے روزنامہ ’’تسنیم‘‘ اور جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے سعید ملک‘ مصطفی صادق اور محی الدین سلفی سے اپنا رابطہ برقرار رکھا‘ اسی طرح وہ قصورسے لاہور آکر جن شخصیتوں کے ساتھ ملاقات کے خواہاں رہتے تھے ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا امین احسن اصلاحی اور سابق وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی خاص طور پر قابل ذکر ہیں‘ روزنامہ وفاق کا اجراء 23 مارچ 1965ء کو لاہور سے ہوا‘ اس وقت آغا شورش کاشمیری کی چٹان بلڈنگ (88 میکلوڈ روڈ) کی پہلی منزل پر وفاق کا دفتر تھا‘ ارشاد صاحب مہینے میں ایک دو بار ضرور قصور سے لاہور آتے تھے اور وفاق کے دفتر میں ہی ان کی نشست ہوتی تھی بعد میں وفاق کا دفتر لاہور ہوٹل کے سامنے ایک عمارت میں چلا گیا اور 1971ء میں شاہراہ قائداعظم پر واقع شاہ دین بلڈنگ میں منتقل ہوگیا جہاں سے سالہاسال ’’نوائے وقت‘‘ شائع ہوتا رہا تھا۔ وہ ’’وفاق‘‘ میں مضامین لکھتے رہے اور مختلف ادوار میں ’’وفاق‘‘ کے اداریہ نویس بھی رہے۔ وہ یہ اداریہ قصور سے لکھ کر بھیجتے تھے۔ اس مقصد کے لئے وہ علی الصبح بس سٹینڈ پر پہنچ جاتے‘ وہیں لاہور سے آنے والے اخبارات کے بنڈل کُھلنے پر اخبارات پر ایک نظر ڈالتے اور اداریہ سپرد قلم کردیتے اور لاہور آنے والے کسی مسافر کے حوالے کردیتے جو ’’وفاق‘‘ کے دفتر میں پہنچانے کا فرض انجام دیتا۔ ان کے خیالات اور افکار بہت روشن‘ واضح اور دو ٹوک رہے۔ قادر الکلام شعراء کی طرح تبصرے اور تجزیئے ان پر نازل ہوتے تھے‘ انہوں نے جو کچھ کاغذ پر منتقل کرنا ہوتا تھا وہ پہلے سے خیالات کے اس سمندر اور سیلاب کی طرح ان کے ذہن و دماغ میں موجزن ہوتا تھا۔ مجھے سالہاسال ان کی تحریریں پڑھنے اور کتابت اور کمپوز ہونے کے بعد ان پر ایک نظر ڈالنے کے مواقع ملتے رہے‘ یقین جانیں ان کی تحریر میں کبھی کسی کمی یا اضافہ یا کانٹ چھانٹ حتیٰ کہ کسی لفظ یا حرف کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی طرف سے چلائی گئی ’’تحریک نظام مصطفی‘‘ کے دوران بھی ’’وفاق‘‘ کا اداریہ ارشاد صاحب لکھتے رہے۔ انہوں نے ایک ادارتی مقالہ میں وزیراعظم بھٹو سے کہا کہ وہ دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیں اور اس معاملے میں ’’سیاسی ہیرا پھیری‘‘ سے کام نہ لیں بھٹو صاحب کو اس اداریہ کی جو سمری انگریزی میں پیش کی گئی اس میں لفظ ہیرا پھیری نمایاں طور پر اردو میں لکھا گیا۔ بھٹو صاحب نے وفاق کے ایڈیٹر مصطفی صادق صاحب کو اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس طلب کیا اور ’’وفاق‘‘ میں اس روز شائع شدہ اداریئے کے حوالے سے اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا۔ بھٹو صاحب بار بار کہہ رہے تھے ’’آپ نے مجھے ہیرا پھیری‘‘ کہا ہے‘ مجھے ہیرا پھیری لکھا ہے اور انہوں نے سخت غصے کے عالم میں تین چار مرتبہ ’’ہیرا پھیری‘‘ کا لفظ دہرایا۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ارشاد صاحب کے لکھے ہوئے حروف اور الفاظ کیا معنی رکھتے تھے اور وہ اقتدار کے ایوانوں میں کس طرح گونجتے اور ارتعاش پیدا کرتے تھے۔
ارشاد حقانی صاحب ایک منجھے ہوئے اداریہ نویس تھے۔ ان کی کالم نویسی کی ابتداء تو رونامہ ’’جنگ‘‘ میں ’’حرف تمنا‘‘ کے نام سے چھپنے والے کالم سے ہوئی۔ ان کی اداریہ نویسی کے جوہر تسنیم‘ وفاق‘ کچھ عرصہ کے لئے نوائے وقت اور پھر جنگ میں کھلتے چلے گئے۔ مجھے روزنامہ ’’وفاق‘‘ میں ان کی رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ کم و بیش تیس برس کی درس و تدریس اور گہرے مطالعہ و مشاہدہ نے انہیں کندن بنادیا تھا‘ وہ بہت سوچ سمجھ کر لکھتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی جس عرصہ میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ کا اداریہ لکھ رہے تھے اور یہ عاجز روزنامہ ’’وفاق‘‘ کے شعبہ مخابرات کے سربراہ کا فریضہ ادا کرتے ہوئے بھٹو کے دور استبداد کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھا اور صلاح الدین (مدیر جسارت) الطاف حسن قریشی (مدیر اردو ڈائجسٹ) اور مجیب الرحمن شامی (مدیر زندگی) جیسے نامور صحافی اپنی جرأت و بے باکی کی سزا قیدوبند کے مصائب کی صورت میں بھگت رہے تھے۔ یہ دور گزرنے کے کئی سال بعد فیڈرل سکیورٹی فورس (جسے بھٹو صاحب کی ذاتی فوج کی حیثیت حاصل رہی) کے ایک اہلکار نے ارشاد احمد حقانی کو ایک تفصیلی خط لکھ کر مطلع کیا کہ اسے ارشاد احمد حقانی اور جمیل اطہر کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس مقصدکے لئے اس نے مزنگ چونگی میں قصور سے لاہور پہنچ کر بس سے اُترنے اور دفتر وفاق پیدل جاتے ہوئے حقانی صاحب کا پیچھا بھی کیا تھا مگر اس کے ضمیر نے ملامت کی اور وہ ان کے خُون سے اپنے ہاتھ رنگنے سے باز رہا‘ حقانی صاحب نے ’’جنگ‘‘ میں شائع شدہ اپنے کالم ’’حرف تمنا‘‘ میں یہ خط شائع کرکے قوم کو یہ بتایا تھا کہ وطن عزیز میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ صحافت کے خارزار میں قدم رکھنے کے معنی اپنی جان‘ مال اور آبرو ہتھیلی پر رکھنا تھے اور یہ شعر معمولی تضمین کے ساتھ صادق آتا تھا ؎
یہ شہادت گہہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں صحافی ہونا
ارشاد احمد حقانی عمر بھر جمہوریت اور جمہوری اقدار کے سچے پرستار اور علمبردار رہے۔ جب وہ وفاق کے لئے اداریہ نویسی کررہے تھے اس وقت بھٹو صاحب کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اپنے جوبن پر تھی تو تحریک کے اندر نوابزادہ نصراللہ خان اور ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان دو مخالف اور متحارب سوچ کے مالک سیاست دان سمجھے جاتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی صاحب کا نقطہ نظر نوابزادہ صاحب کے مؤقف سے قریب تر تھا‘ ایک موقع پر ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے جو کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے مدیر ’’وفاق‘‘ مصطفی صادق صاحب سے کہا کہ کیا آج کل ’’وفاق‘‘ کا اداریہ نوابزادہ نصراللہ خان لکھ رہے ہیں۔ ایئر مارشل کے اس تأثر سے یہ اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح نوابزادہ نصراللہ خان جمہوریت سے اپنی لازوال وابستگی کے باعث ’’بابائے جمہوریت‘‘ کہلائے‘ اسی طرح اپنے وطن کی محبت کے صدہا رنگوں میں گندھے ہوئے اپنے اداریوں اور کالموں کی وجہ سے ارشاد احمد حقانی بھی ’’بابائے صحافت‘‘ قرار دیئے جانے کے بجا طور پر حق دار ہیں۔ انہوں نے بھٹو‘ ضیاء الحق‘ جونیجو‘ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں کسی مصلحت اور مفاد کی پروا کئے بغیر ان پر نکتہ چینی کی۔
…………………… (جاری)
ارشاد احمد حقانی
May 11, 2025