بدھ، 9 شوال 1443ھ‘ 11 مئی 2022ء

وزیراعلیٰ پنجاب کا راولپنڈی کا متوقع دورہ‘ آر ڈبلیو ایم سی افسروں کی دوڑیں‘ رات بھر گاڑیاں سڑکیں دھوتی رہیں۔
چلیں کم از کم پنجاب کی وہ شکل تو عوام کو دوبارہ دیکھنے کو ملے گی جسے گزشتہ چار سال میں پنجاب خود بھی بھول گیا تھا۔ گلی محلوں میں صفائی کی ابتر حالت دیکھ کر افسوس ہوتا تھا‘ صفائی کہیں نظر نہیں آتی تھی‘ جگہ جگہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نظر آیا کرتے تھے۔ صرف وہ علاقے اور سڑکیں صاف ستھری ہوا کرتی تھیں جہاں سے وزراء کا گزر ہوتا تھا۔ شکر ہے اب عوام کو اس گندگی سے چھٹکارا ملے گا اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب کو نکھاردیں گے۔ انہوں نے پنجاب میں صفائی کا بیڑہ اٹھایا ہے تو افسروں کی دوڑیں بھی لگیں گی اور سڑکیں بھی دھلیں گی۔ جب شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے‘ وہ تو آدھی رات کو بھی بغیر پروٹوکول کے شہر کا گشت کرنے نکل جایا کرتے تھے‘ جب افسران کو معلوم ہوتا کہ وزیراعلیٰ لاہور کی سڑکوں پر ہیں تو وہ بھی نیند سے اٹھ کر دوڑ پڑتے تھے۔ اس دوڑا دوڑی میں بہت سے کام وقت سے پہلے ہی مکمل ہو جایا کرتے تھے۔ شہباز صاحب کی عوامی خدمات میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آدھی رات کو شہر کا جائزہ لیتے اور صبح آٹھ بجے تیار ہو کر دفتر بھی پہنچ جایا کرتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ قوم کی خدمت کی جا سکے۔ اس طرح انکے ساتھ ساتھ پوری انتظامیہ ہر وقت مصروف نظر آتی تھی جس کا فائدہ عوام کو پہنچتا تھا۔
برسات کے موسم میں واسا کے اہلکار شہروں میں پانی نکالنے میں مصروف رہتے۔ اگر کہیں پانی کھڑا نظر آتا تو اہلکاروں کی سرزنش کرتے اور لانگ شوز پہنچ کر خود پانی میں اتر جایا کرتے۔ انکی کام میں لگن اور عوامی ریلیف کو دیکھ کر ہی سندھ کے عوام کہا کرتے تھے کہ کاش شہباز شریف ہمارے وزیراعلیٰ ہوتے تو کراچی سمیت پورے سندھ کے وارے نیارے ہوجاتے۔
اب پنجاب کی باگ ڈور انکے بیٹے حمزہ شہباز نے سنبھال لی ہے‘ دیکھتے ہیں وہ پنجاب کی خوبصورتی کو کس معراج پر لے جاتے ہیں۔ امید تو یہی ہے کہ وہ بھی والد محترم کی طرح دن رات کام کرکے پنجاب کے عوام کا دل جیت لیں گے اور پنجاب کو ترقی کے حوالے سے ایک مثالی صوبہ بنا دینگے۔
٭…٭…٭
غلط یوٹرن لینے پر دلہن کو ساتھ لانے والے دولہا کی گاڑی کا 2 ہزار روپے کا چالان۔
ہماری سیاست میں یوٹرن کو بڑی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ ویسے تو یوٹرن لینا ہر سیاسی جماعت کا وطیرہ رہا ہے لیکن سابقہ دور حکومت میں تو یوٹرن لینے کا ایک ریکارڈ موجود ہے جس پر سابق وزیراعظم عمران خان کو خود یہ وضاحت کرکے اپنی جان چھڑانا پڑی کہ اچھے کام کیلئے اگر یوٹرن لینا پڑے تو لے لینا چاہیے۔ انکی یہ دلیل کسی حد تک صائب نظر آتی ہے لیکن یوٹرن لینے پر بھی اچھے کام کام نہ ہو پائیں تو جمہوری دور میں یوٹرن پر انگلیاں اٹھانا عوام اور مخالفین کا حق تو بنتا ہے۔ اگر سابقہ دور حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو قوم کو صرف یوٹرن کا انبار ہی نظر آئیگا۔
خیر سے یوٹرن لینے میں کسر تو موجودہ حکومت بھی نہیں چھوڑ رہی۔ آتے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کر ڈالا‘ ابھی سرکاری ملازمین اپنی بڑھنے والی تنخواہ کے سہانے سپنے دیکھ ہی رہے تھے کہ سرکار نے اپنی ’’خالی جیب‘‘ دیکھ کر فوری یوٹرن لے کر انکے سہانے سپنے چکنا چور کر دیئے۔ پٹرول سستا کرنے کے دعوے بھی تواتر کے ساتھ کئے جاتے رہے‘ اب اس پر بھی یوٹرن لینے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ بہرحال عوام دیکھتے جائیں‘ آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
دولہا میاں شکر ادا کریں کہ غلط یوٹرن لینے پر صرف 2 ہزار کے چالان پر ہی انکی خلاصی ہو گئی۔ یہ چالان ان کیلئے ایک اشارہ ہے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی میں بڑی احتیاط سے چلیں اور اپنی شروع ہونیوالی نئی زندگی کی گاڑی سیدھی راہ پر ہی گامزن رکھیں۔ اپنی بیگم سے ایسا کوئی وعدہ نہ کریں جس پر انہیں یوٹرن لینا پڑے ورنہ انکی نصف بہتر انکی زندگی کو عملی طور پر ’’بہتر‘‘ بنا کر رکھ دیگی۔
٭…٭…٭
پی آئی اے کی پرواز 6 گھنٹے قبل روانہ‘ 21 مسافروں کو مدینہ چھوڑ آئی۔
ایک وقت تھا جب قومی ایئر لائن پی آئی اے اپنی مثال آپ تھی‘ اندرون ملک ہی نہیں‘ بیرون ملک بھی اس قومی ایئرلائن کے خوب چرچے ہوا کرتے تھے اور یہ کریڈٹ بھی پی آئی اے کو جاتا ہے کہ جس نے سب سے پہلے جہاز میں فلموں‘ ڈراموں پر مبنی انٹرٹینمنٹ پروگرام متعارف کرایا۔ لوگ اس میں سفر کرنا بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ پھر اس قومی ایئرلائن پر ایسا زوال شروع ہوا کہ کسی بھی دور حکومت میں اسکی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی گئی‘ نتیجتاً پی آئی اے کی پروازیں نہ صرف پوری دنیا میں محدود ہو گئیں بلکہ بہت سے طیارے پرواز کے قابل بھی نہ رہے۔ کئی ممالک نے تو اس پر پابندی بھی لگا دی۔ اسکے باوجود اس قومی ایئرلائن کی کارکردگی بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہ دی گئی اور اس کو اسکے حال پر چھوڑ دیا گیا۔
جس طرح پہلے یہ قومی ایئرلائن بہترین کارکردگی میں اپنی مثال آپ تھی‘ آج ناقص کارکردگی میں بھی اپنی مثال آپ نظر آتی ہے۔ اسی لئے اب نہ وہ باکمال لوگ رہے جو اس پر سفر کرکے فخر محسوس کرتے تھے اور نہ ہی اسکی وہ لاجواب سروس رہی جس سے لطف اندوز ہونے کیلئے اس کو ترجیح دیا کرتے تھے۔
یہ لاجواب پرواز مقررہ وقت سے 6 گھنٹے پہلے مدینہ سے پاکستان کیلئے روزانہ ہو گئی اور بے چارے 21 مسافروں کو مدینہ ہی چھوڑ آئی جو اسکی ناقص کارکردگی سے محروم رہ گئے۔ پی آئی اے شاید نئی حکومت سے ’’حسن ِ کارکردگی‘‘ کا تمغہ لینے کیلئے پھرتیوں پر اتر آئی ہے۔اسکی یہ پھرتیاں دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی ایئرلائن نے ازخود فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ ایک بار پھر دنیا میں خود کو منوائے گی اور کارکردگی کی بہترین مثال بن کر سامنے آئیگی ۔