موجودہ نظام عدل…ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اکثر غیر جانبدار حلقوں کی رائے ہے کہ پاکستان میں نظام عدل کسی حد تک چرمرا کر رہ گیا ہے حالانکہ بالعموم یہ کہا جا تا ہے کہ انصاف کی فراہمی کسی بھی معاشرے بلکہ ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور انصاف کی فراہمی ہوتی نظر بھی آنی چاہیے مگر بدقسمتی سے تاحال پاکستان میں اس بابت صورتحال کسی بھی طور قابل رشک تو دور قابل اطمینان بھی نظر نہیں آتی۔اڑھائی سال پہلے جب عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو عوام الناس میں یہ تاثر خاصا گہرا ہوا تھا کہ اب غالبا انصاف اور قانون کی فراہمی کے عمل کو زیادہ موثر ڈھنگ سے عمل میں لایا جائے گا ۔اس ضمن میں حکومت نے خاصی حد تک جانفشانی سے کام کرنے کا تاثر بھی دیا مگر تاحال نتائج کسی بھی طور حوصلہ افزا قرار نہیں دیے جا سکتے ۔ایسے میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا حالیہ دنوں میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں اور پاک افواج کے حوالے سے عجیب طرح کے افسانے گردش کر رہے ہیں ۔قیاس کے ایسے ایسے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں کہ عام آدمی حیران بھی ہے اور پریشان بھی،اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ قانون اور انصاف کے محافظ بھلا آپس میں کس طور دست وگریبان ہو سکتے ہیں کہ ایسی صورتحال توبدترین طوائف و الملوکی میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔سیاسی انتشار اور معاشی ابتری کسی حد تک سکہ رائج ا لوقت بن چکی ہے۔اگر کسی حد تک غیر جانبدار ہو کر معاملات کا جائزہ لیں تو بڑی حد تک واضح ہو جاتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز خصوصاً ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی جانب سے بھی کچھ مراحل پر قابل رشک روش کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور صورتحال ’’ حبِ علیؓ‘‘ کی بجائے ’’ بغض معاویہ‘‘ کی جانب موڑ لے چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستانی عوام، حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کی روش اگرچہ مغربی اور بھارتی میڈیا کا دیرینہ مشغلہ رہا ہے مگر وطن عزیز کے کچھ حلقے بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس میں اپنا کردار ادا کر
رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی شدت آ گئی ہے اور افواج پاکستان و آئی ایس آئی کے خلاف ایسے ایسے افسانے تراشے جا رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ ہی پیر۔ درحقیقت پاکستان کے ازلی مخالفین گذشتہ73 سالوں سے وطن عزیز کے خلاف منظم مہم چھیڑے ہوئے ہیں اور اس کے پس پردہ نہ صرف بھارت اور اسرائیل کے حکومتی طبقات ہے بلکہ امریکہ اور یورپ کے کچھ حلقے بھی اس مکروہ مہم میں حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد ان حلقوں کی بن آئی تھی، جب عالمی سطح پر پاکستان پر کافی دبائو بڑھ گیا تھا مگر زمینی حقیقت ازل سے یہی چلی آ رہی ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، سچ کو بہرحال سامنے آنا ہی ہوتا ہے، محض پراپیگنڈے کے زور پر کوئی فرد یا گروہ ساری دنیا کو ہمیشہ کے لئے گمراہ نہیں کر سکتا۔ لہذا اسی آفاقی اصول کے تحت عالمی برادری پر بھی گذشتہ کچھ عرصہ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستانی ادارے دہشتگردی کی سرپرستی نہیں کر رہے بلکہ اس برائی کے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عالمی برادری کے خاصے بڑے حلقے میں بھی اس حقیقت کا ادراک سامنے آ رہا ہے کہ پاک فوج، عوام اور آئی ایس آئی دہشتگردی کے خاتمے کے لئے لازوال قربانیاں دے رہے ہیں۔ اسی عالمی اعتراف کا نتیجہ ہے کہ کئی انسان دوست حلقوں کی جانب سے گاہے بگاہے پاک فوج اور آئی ایس آئی کی بھرپور تعریف کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بات پاکستان کے مخالفین کو کسی طور ہضم نہیں ہو سکتی، اس لئے انھوں نے پلٹ کر وار کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی سفارتی پسپائی کو فتح میں تبدیل کرنے کی ناکام سعی کی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں کبھی پاک مخالف شخصیتوں کو مہرہ بنا کر ہرزہ سرائی کرائی جاتی ہے اور کبھی کچھ نام نہاد ’تجزیہ نگاروں‘ کے ذریعے ایسی نکتہ آفرینیاں کرائی جاتی ہیں کہ الامان الحفیظ۔
حالانکہ اس بات سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں کہ دہشتگردی کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے ، یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ پاکستان میں افسروں اور جوانوں کی شہادت کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ افواج پاکستان کے سینئر افسران سمیت 7 ہزار سے زائد آرمی اہلکار اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر چکے ہیں۔ کیا امریکہ، بھارت، اسرائیل یا کوئی بھی دوسری ریاست اس طرح کی کوئی قربانیاں رقم کر سکی ہے؟۔ان تمام قربانیوں کے باوجود اگر کوئی بیرونی طاقتوں کے ایما پر قومی سلامتی کے اداروں کو ہدف تنقید بنائے تو عالمی برادری خصوصاً امریکہ، برطانیہ اور دیگر حکومتوں کا فریضہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ایسے شرپسند عناصر کی لغویات کی فوری طور پر تردید کریں ۔ علاوہ ازیں پاک عدلیہ کی بابت پھیلائے جانے والے منفی تاثر کا خاتمہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کیلئے سب سے اہم کردار غالباً عدلیہ کو اپنے عمل سے خود ہی ادا کرنا ہو گا۔ عالمی ذرائع ابلاغ ایسے الزامات کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اس طرح کے شر پسند طبقات کی ذہنی حالت کا محاسبہ کریں اور یہ بھی پتہ لگائیں کہ اس کے محرکات کیا ہیں؟ اس طرح کے عمل سے دہشتگرد اور منفی عناصر کو تقویت ملتی ہے ۔وطن عزیز کے سبھی حلقوں خصوصاً سول سوسائٹی کی بھی ذمہ داری ہے کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا و تحقیقی اداروں کے ذریعے ایسی بے بنیاد الزام تراشیوں کا خاطر خواہ ڈھنگ سے جواب دیں اور بڑے ناموں سے مرعوب ہونے کے بجائے دلیل اور ’’لوجک‘‘ کو اہمیت دیں۔ کچھ بڑے نام غالباً اپنے طرز عمل کی وجہ سے ’’نام بڑا اور درشن چھوٹے‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہو گا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب برطانیہ کو ہر محاذ پر شکست ہو رہی تھی تو تب اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم سر وسٹن چرچل نے اپنے قریبی ساتھیوں سے پوچھا کہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود کیا ہماری عداتیں اپنے فرائض پوری دیانت
داری کے ساتھ انجام دے رہی ہیں؟تو سبھی شرکا نے اس امر کا اقرار کیا کہ ہاں بلاشبہ ہماری دالیہ فرائض صحیح طور ادا کر رہی ہے تو چرچل نے جواب دیا کہ پھر فکر کی کوئی بات نہیں جس ملک میں عدالتیں اپنے فرائض پوری دیانتداری کے ساتھ انجام دی رہی ہوں اُ س معاشرے کو کسی طور شکست نہیں دی جا سکتی۔ اسی تناظر میں اگر ہم اپنے آپ سے سوال کر یں کہ کیا ہماری موجود ہ عداتیں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدہ بر ہو رہی ہیں اور ہر خاص و عام کو انصاف کے یکساں مواقع میسر ہیں تو اس کے جواب سے ہم سب پہلے ہی بخوبی آگاہ ہیں۔ ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ‘‘