عوام کیلئے احساس اور میڈیا کیلئے حساس پروگرام
گزشتہ ہفتے میںنے فواد چوہدری کیلئے ایک خیر مقدمی کالم لکھا وہ وزارت اطلاعات میں واپس آئے ہیں تو یہ ایک بڑا معرکہ سر کرنے کے برابر ہے،انہوں نے اپنے آپ کو اس وزارت کیلئے ناگزیر ثابت کیا ہے،مجھے کچھ کچھ ان سے دوستی کا بھی دعویٰ ہے اس لیے میں نے لبرٹی لیتے ہوئے انکے سامنے بعض گزارشات بھی رکھیں۔
آگے بڑھنے پہلے میں قارئین کو چند روز پرانی ایک المناک اور دکھ بھری کہانی سنانا چاہتا ہوں،یہ ایک سطری خبرمیں نے کسی ٹی وی چینل پر سنی تھی،فیصل آباد کے کسی سگے باپ نے اپنے چار سگے بچوں کو نہر میں پھینک دیا۔وہ ان کی ماں کو یہ کہہ کر گھر سے لایا تھا کہ وہ انہیں عید کی شاپنگ کیلئے لے جا رہا ہے ،بھوک اور بیماری سے ستائے لوگوں کے بارے میں ایسی خبریں اکثر سننے میں آتی ہیں۔اور یہ وااقعات ایک ایسے ملک میں رونما ہورہے ہیں جسے اسلامی،فلاحی ،پارلیمانی اور جمہوری مملکت کہا جاتا ہے۔ہم اس تاریخ کے وارث ہیں جس میں خلیفہ وقت اپنے کندھے پر آٹے کی بوری رکھ کر کسی دکھیاری عورت کی کٹیا میں جا کر خود ڈلیور کرتا تھا ،اور یہی خلیفہ جب ایک کم عمر بچے کو مسلسل روتے اور اس کی ماں سے مار کھاتے دیکھ کر پوچھتا کہ خاتون کیا ماجرا ہے تم اس بچے کو کیوں مار رہی ہو،اگر یہ بھوکا ہے تو اسے کھانے کیلئے کچھ دیتی کیوں نہیں ۔عورت نے جواب دیا کہ ایک ایسا خلیفہ آگیا ہے جس ے قانون بنا دیا ہے کہ جب تک بچہ دودھ نہیں چھوڑے گا اس کو بیت المال سے وظیفہ نہیں ملے گا تو اب یہ بچہ دودھ مانگ رہا ہے،میں اس کا دودھ چھڑانے کی کوشش کر رہی ہوں تاکہ خلیفہ سے جا کر وظیفہ لے سکوں ،خلیفہ وقت کو اپنے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور ایک نیا حکم جاری کیا کہ اب جیسے ہی بچہ پیدا ہوگا ساتھ ہی اس کیلئے بیت المال سے وظیفہ جاری کردیا جائیگا۔قائد اعظم اور انکے ساتھیوں نے انہی روشن اور راہنما اصولوں کے پیش نظر قیام پاکستان کیلئے ایک جاںگسل جد وجہد کی تھی۔اسی مملکت کے شہریوں سے بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا ،اسی ملک کے عوام کیلئے تحریک نظامیٰ مصطفی والوں نے انیس سو ستر کی قیمتیں واپس لانے کا وعدہ کیا۔سیاست دانوں کے وعدے لارا لپہ ہوتے ہیں۔بے نظیر بھٹو نے غریبوں کیلئے انکم سپورٹ پروگرام کا اعلان کیا ۔یہ تو رسرچ سے بھی پتا نہیں چل سکتا کہ یہ انکم سپورٹ کا فنڈ کہاں خرچ ہو۔ا گھوسٹ اسکولوں کی طرح گھوسٹ بیوائوں کی بھی لسٹیں بنیں اور فنڈ خرد برد کر لیا گیا۔سندھ میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔اگر اس پروگرام پر صحیح معنوں میں عمل ہو رہا ہوتاتو تھر کے بچے بھوک اور پیاس سے مر نہ رہے ہوتے۔ شہباز شریف نے سستی روٹی کے تنور لگائے مگر وہاں روٹی مہنگی بکتی رہی ۔اب کچھ تبدیلی دیکھنے کو آرہی ہے کہ حکومت نے احساس پروگرام شروع کیا ہے ،اس پروگرام پر انگلی اس لیے نہیں اٹھائی جاسکتی کہ اسکے پیچھے نادرا کا ڈیٹا بیس ثبوت کیلئے موجود ہے ۔احساس پروگرام در اصل وزیر اعظم عمران خان کے تصور کی پیدا وار ہے ۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایک خوشحال خاندان کا فرد ہونے کے ناطے عمران خان کو غریبوں سے ہمدردی کیسے پیدا ہوگئی لیکن جب دوسری طرف ملک کے مختلف شہروں میں ان کے کینسر ہسپتالوں کا جال بچھا ہوا دیکھتا ہوں ،جہاں کینسر کا مہنگا ترین علاج مستحق غریبوں کو مفت فراہم کیا جارہا ہے۔ اس سے مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ عمران خان کے دل میں کہیں غریبوں کی ایک جھونپڑی آباد ہے جو اس کے دماغ کو تڑپائے اور گرمائے رکھتی ہے ۔کرونا کے دنوں میں تو اس تڑپ میں حد سے بڑھ کر اضافہ ہوگیا ،جب ساری دنیا میں سخت لاک ڈائون تھا تو ایک وزیر اعظم عمران خان کی شکل میںدنیا میں ایسا تھا جس نے دیہاڑی دار کا خیال رکھا اور ریڑھی والے سے اسکی روزی روٹی نہیں چھینی، وزیر اعظم کا سمارٹ لاک ڈائون کا مثالی ماڈل دنیا کے کئی ممالک نے اپنایا۔
احساس پروگرام کئی شکلوں میں سامنے آیا ہے،کہیں ڈیڑھ کڑور نوکریوں کے مواقع پیدا کیے جارہے ہیں کہیں ماحول ٹھیک کرنے کیلئے کئی ارب درخت لگائے جا رہے ہیں۔کہیں پاکستان ہائوسنگ کی شکل میں تین مرلے اور پانچ مرلے کے چھوٹے مکانوں کیلئے بلاسود رقرضے دیے جا رہے ہیں،کہیں کنسٹرکشن کا شعبہ کھول دیا گیا ہے جس سے تین درجن مزید کاروبار شروع ہوگئے ہیں اب کرونا کی تیسری لہر نے قیامت برپا کر رکھی ہے مگر احساس پروگرام اس قیامت کی تندی و تیزی کو کم کرنے کیلئے سرگرم عمل ہے اور ناداروں کی دہلیز پر بارہ بارہ ہزار روپے پہنچانے کی تیاری ہو رہی ہے ۔
میں نے وزیر اطلاعات کو یاد کرایا تھا کہ پچھلے سال کے رمضان المبارک میں میڈیا کے بے روزگار صحافیوں کیلئے پی آئی ڈی کی طرف سے راشن تقسیم کیا گیا تھا۔ آج جب مہنگائی کا جن پھنکار رہا ہے تو بے روز گار صحافی بھی امداد کے زیادہ مستحق تھے ۔میںنے وزیر اطلاعات سے اپیل کی تھی کہ وہ رمضان کے آخری عشرے کے پیش نظر نیکیاں کمائیں اور بے روز گار صحافیوںکو سحری اور افطاری کی ضروریات کیلئے راشن جاری کریں،میری اس اپیل پر عمل ہونا باقی ہے اور رمضان ختم ہونے میں بھی چند روزباقی رہ گئے ہیں۔بے روزگار صحافی احساس پروگرام کے ڈیٹا بیس میں شامل نہیں ہیں اس لیے میری تجویز یہ تھی کہ میڈیا جیسے حساس طبقے کی امداد کیلئے ایک حساس پروگرام شروع کیا جائے۔ اب بھی وزیر اطلاعات کیلئے موقع ہے کہ وہ نادار اور بے روزگار صحافیوں کو عیدی کا لفافہ ہی ارسال کردیں ۔چند ماہ قبل وزارت اطلاعات نے ایک نیک قدم اٹھا یا تھا کہ بیمار اور معذور صحافیوں میں کئی کروڑ روپے کی امدادی رقم تقسیم کی گئی ، اب بھی اس نوعیت کی چند ایک درخواستیں سیکرٹری اطلاعات کی میز پر پڑی ہیں اور اگر وزیر اطلاعات ابرو کا اشار ہ کردیں تو یہ چند کیس بھی نمٹائے جاسکتے ہیں اور معذور نادار اور بیمار اور بڑھاپے کا شکار صحافی بھی سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔ میڈیا کے کارکن بڑے حساس واقع ہوئے ہیں وہ ساری دنیا کے مسائل پرآواز بلند کرتے ہیں مگر اپنا مسئلہ زبان پر نہیں لاسکتے۔ فواد چوہدری،ایسے بے زبانوں کی زبان سمجھنے میں ہر گز تاخیر نہ کریں ۔