نیکیوں کی لوٹ سیل
ماہ رمضان میں ایک خاص قسم کا ماحول ہوتا ہے مذہبی رنگ غالب نظر آتا ہے کرونا کی وباء نے جہاں ساری دنیا کے روایتی نظام الٹا پلٹا کے رکھ دیئے وہیں پاکستان میں رمضان المبارک کی روایتی محفلوں کو بھی شدید متاثر کیا روایتی افطار پارٹیاں تو دور کی بات اب تو سارے گھر والے بھی اکھٹے بیٹھ کر افطاری نہیں کر رہے حالانکہ پاکستان میں سیاسی، سماجی، معاشی سرگرمیوں کا محور افطار ڈنر ہوا کرتے تھے مساجد میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی وہ خاص قسم کا ماحول پچھلے سال سے ناپید ہو چلا لیکن نیکیوں کی لوٹ سیل جاری ہے چونکہ اس بابرکت مہینہ میں زکوٰۃ، صدقات اور خیرات دل کھول کر کی جاتی ہے تو ہر طرح کی سر گرمیاں عروج پر ہوتی ہیں ڈونیشن اکٹھا کرنے والوں کا بھی میلہ لگا ہوتا ہے۔ اس مہینہ میں اتنی ڈونیشن اکھٹی ہوتی ہے کہ بعض ادارے پورا سال اپنا نظام اس ڈونیشن سے چلاتے ہیں پاکستان کو اس پر فخر کرنا چاہیے کہ دنیا میں ڈونیشن دینے والے ملکوں میں پاکستان کا شمار ٹاپ ٹین ممالک میں ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں رواج بن گیا ہے کہ پاکستان کی برائیوں کو ہی صرف اچھالنا ہے اور اچھائیوں کو دبا کر رکھنا ہے کہ کہیں پاکستان کا امیج بہتر نہ ہو جائے ہمیں ایدھی فائونڈیشن، چھیپا، شوکت خانم ہسپتال، میاں منشی ہسپتال، گھرکی ٹرسٹ ہسپتال، الشفاء ، گلاب دیوی ہسپتال، سندس فائونڈیشن اور ایسے بیسیوں ادارے جو خدمت خلق کا کام کر رہے ہیں ان پر مان کرنا چاہیے اور دنیا کو انکی مثالیں دینی چاہیں۔
اسی طرح ہزاروں ایسی شخصیات ہیں جو بغیر کسی تشہیر کے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں یہ سب لوگ قابل فخر ہیں لاہور کی ایک اہم سماجی شخصیت میاں سعید ڈیرے والے کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے اپنی زندگی فلاح کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی ہے وہ گھرکی ہسپتال بورڈ آف ٹرسٹی کے چیئرمین ہیں ہرسال اپنے دوستوں سے کروڑوں روپے اکھٹے کر کے ہسپتال کو دیتے ہیں اور یہ ہسپتال لاہور کی دیہی آبادی کا سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ہے جس کے بعض شعبے اتنے مستند ہیں کہ پورے پاکستان سے لوگ وہاں علاج کروانے آتے ہیں۔
میاں سعید ہرسال ہزاروں مستحقین کو راشن تقسیم کرتے ہیں اور یہ راشن بیگ دور دراز دیہات میں حق داروں تک پہنچانے جاتے ہیں انہوں نے کرونا وباء میں لاک ڈاون کے دوران لاہور میں روزانہ ہزاروں غریب گھرانوں کو الخدمت فائونڈیشن کے ذریعے کھانا تقسیم کیا سیلاب زلزلہ متاثرین میں کروڑوں کا سامان تقسیم کیا سینکڑوں مستحق بچیوں کی شادیاں کروا چکے ہیں۔ وہ اپنی ایک تنظیم انجمن آرائیاں پاکستان کے ذریعے بھی لاتعداد فلاحی منصوبے جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن کبھی تشہیر کے طلب گار نہیں رہے اسی طرح چوہدری محمد جمیل جی ایم کیبل والے دل کھول کر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ حاجی محمد حنیف اپنی رہائش گاہ نذیر پیلس پر ہزاروں لوگوں کا کھانا تیار کر کے تقسیم کرتے ہیں مجھے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے دوست محمد نواز کھرل نے وزٹ کی دعوت دی تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پانچ ماہ قبل ٹرسٹ کے زیر اہتمام قائم ہونے والا المصطفیٰ آئی ہسپتال کس حد تک لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے ان پانچ ماہ میں ایک لاکھ سے زائد مریضوں کو چیک اپ کیاگیا اور گیارہ سو مریضوں کی آنکھوں کا آپریشن ہوا المصطفیٰ آئی ہسپتال ہر ہفتے کسی نہ کسی علاقے میں کیمپ لگاتا ہے جہاں مریضوں کو چیک کیا جاتا ہے اور جن کے آپریشن ہونا ہوتے ہیں جن کو لینز ڈالے جاتے ہیں انہیں ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ہسپتال میں ٹیسٹوں سے لے کر ادویات تک ہر چیز مفت مہیا کی جاتی ہے پاکستان کے مایہ ناز ڈاکٹر محمد شریف اور ڈاکٹر ناصر چوہدری نے بھی اپنی خدمات وقف کر رکھی ہیں اسی طرح المصطفیٰ ٹرسٹ نے مستحقین کے لیے المصطفیٰ دستر خوان کا بھی اہتمام کر رکھا جہاں آجکل مکمل ایس او پیز کے ساتھ افطاری کروائی جاتی ہے المصطفیٰ ٹرسٹ کے بانی ایک درد دل رکھنے والے پاکستانی عبدالرزاق ساجد ہیں جو خود تو برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن ان کا دل پاکستان میں دھڑکتا ہے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا ہیڈ آفس بھی برطانیہ میں ہے اس ٹرسٹ کے زیراہتمام 20 ممالک میں فلاحی منصوبے جاری ہیں برطانیہ میں المصطفیٰ ٹرسٹ کا شمار بڑے پاکستانی فلاحی اداروں میں ہوتا ہے عبدالرزاق ساجد 2008 سے فلاحی کاموں میں مصروف ہیں پاکستان میں ہمارے صحافی دوست تجمل گورمانی بھی خدمت خلق کے اس مشن میں ان کے ساتھ ہیں اللہ کے نزدیک سب سے بڑی عبادت انسانیت کی خدمت ہے جو کوئی اس خدمت کا حصہ بنتا ہے اللہ اس پر اپنی رحمت کا سایہ کر دیتا ہے اسی رمضان میں ہمارے ایک اور دوست رانا عنصر محمود جو کہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ایک مزدور کو افطاری سے قبل 50 روپے کی چیز خریدتے دیکھا میں نے اسے پوچھا کہ اتنی سی چیز کے ساتھ تم افطاری کر لو گے اس نے بتایا کہ میرے پاس صرف پچاس روپے ہیں دو دن سے مجھے کوئی کام نہیں ملا میں نے اسے دعوت دی کہ آج تم افطاری میرے ساتھ کرو اس کے ساتھ افطاری نے میری دنیا بدل دی میں نے سوچا کہ اس جیسے کتنے اور ہوں گے جو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتے میں نے اسی دن فیصلہ کر لیا اور اپنی ماں کے نام سے سیماں فائونڈیشن بنائی اور اگلے دن گھر سے کھانا پکوا کر اپنی اکیڈمی کے باہر سڑک پر دریاں بچھا کر لگا دیا دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور اسی دوران میاں محمد حنیف ماربل والے سماجی رہنما راجہ اطہر اور راجہ حبیب نے بھی اس کاوش میں شامل ہونے کا اظہار کیا اللہ تعالٰی کو ہماری یہ کاوش اتنی پسند آئی کہ چند دنوں میں افطاری کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں جاپہنچی ہے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ فلاح کے کاموں میں اللہ تعالیٰ غیبی مدد فرماتے ہیں۔