چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا ہے کہہمارے پاس الفاظ نہیں کہ ہزارہ برادری کے قتل پر مذمت کرسکیں، ہمیں ان کی حفاظت کرنی ہیں، سیکیورٹی ایجنسیز رپورٹ دیں کہ یہ سب کیا ہو رہاہے، یہ قتل نہیں بلکہ ہزارہ برداری کی نسل کشی ہے۔ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ(جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الحسن ) نے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) بلوچستان معظم جاہ انصاری نے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں کہ ان واقعات کی مذمت کرسکیں، میرے مطابق یہ نسل کشی ہے، جس پر سوموٹونوٹس لینا پڑا، چیف جسٹس نے کمرا عدالت میں موجود سیکیورٹی حکام سے استفسار کرتے ہوئے پوچھا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) فرنٹیئر کور) ایف سی) میجر جنرل ندیم انجم کہاں ہیں؟، جس پر نمائندہ ایف سی نے کہا کہ وہ اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں، جبکہ سماعت میں ان کا نمائندہ موجود ہے، چیف جسٹس نے ایف سی نمائندے سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ برادری کی جان و مال کی حفاظت ہمیں کرنی ہے، مجھے ایجنسیز رپورٹ مرتب کر کے دیں کہ یہ سب کیا اور کیسے ہو رہا ہے۔ہزارہ برادری کے وکیل افتخار علی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے معتبرین سے بھی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے جس پر ڈی آئی جی کوئٹہ نے کہا کہ انہوں نے سکیورٹی واپس نہیں لی۔ ہزارہ برادری کے وکیل نے کہا کہ گزشتہ 20 سال سے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے لیکن آج تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) بلوچستان معظم جاہ انصاری سے استفسار کیا کہ ٹارگٹ کلنگ سے متعلق رپورٹ بنائی؟ ،جس پر آئی جی بلوچستان نے رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس میں بتایا گیا کہ 2013 میں ہزارہ برادری کی سب سے زیادہ زیادہ ٹارگٹ کلنگ ہوئی اور مذکورہ سال کے دوران 208 افراد کو قتل کیا گیا، تاہم اب امن و امان کے حوالے سے کافی بہتری آگئی ہے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت عید الفطر تک ملتوی کردی گئی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024