خواجہ غلام فرید میلہ ملتان
خواجہ غلام فرید ایک عظیم صوفی شاعر ہیں جن کی شاعری انسانیت اور خالق کی محبت میں گندھی ہوئی ہے۔ صوفی ہمیشہ لوکائی کے دُکھ سکھ کو اپنا دُکھ سکھ بنا کر پیش کرتا ہے۔ خواجہ فرید نے روہی کی دھڑکنوں کو محسوس کر کے زمین کا احوال بیان کیا۔ ان کی شاعری میں عجیب رچاﺅ ہے۔ یوں تو ملتان میں کئی میلے ہوتے رہتے ہیں مگر اس بار ملتان میں ہونے والا خواجہ فرید میلہ اپنی نوعیت کا دلچسپ اور منفرد میلہ تھا۔ پِلاک محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سجائے اس میلے میں سیمینار، محفلِ موسیقی، گائیکی کلام خواجہ غلام فرید اور میوزک نائٹ شامل تھی۔
پہلے سیشن میں ”خواجہ غلام فرید اور انسانیت“ کے موضوع پر سیمینار میں خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ (دربار فرید کوٹ مٹھن شریف)، این ایف سی انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ملک اختر علی کرلو، معروف گلوکارہ ثریا ملتانیکر، ڈاکٹر محمد امین، ظہور دھریجہ، شوکت مغل، محبوب تابش، ڈاکٹر نسیم اختر، شاکر حسین شاکر، خالد مسعود خان، ڈاکٹر مقبول گیلانی، قمر رضا شہزاد، رضی الدین رضی، احسان علی رانا، ارشاد امین، جہانگیر مخلص، عامر شہزاد صدیقی، شاہد عالم شاہد، وسیم الدین ممتاز، محمد سلیم اور امجد کلیار نے خواجہ غلام فرید کے کلام کی مختلف پرتیں کھول کر بیان کیں جنہیں حاضرین نے بڑی دلچسپی سے سنا۔ مقررین نے دورِ حاضر کے مسائل پر قابو پانے کے لئے صوفیاءکی تعلیم سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ عارفانہ گائیکی کلام خواجہ غلام فرید میں ثریا ملتانیکر نے ”پیلو پکیاں نی آ چنوں رَل یار“ اور دیگر کافیاں گا کر محفل پر وِجدانی کیفیت طاری کر دی۔ بنیادی طور پر ثریا ملتانیکر ایک صوفی صفت انسان ہیں۔ ان کی شخصیت حلیمی، رواداری اور محبت کی عملی تجسیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے ان کی آواز میں ایک انوکھا سوز بھر دیا ہے جو سننے والوں کے دلوں پر روحانی کیفیات طاری کر دیتا ہے۔ ان کے علاوہ ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے دیگر معروف گلوکاروں میں موہن بھگت، نسیم سیمی، جمیل پروانہ، ثوبیہ ملک اور رمضان حسین نے بھی خواجہ غلام فرید کا خوبصورت کلام اپنے نرالے انداز میں پیش کیا۔ تقریب کے آخری حصے میں نوجوان نسل کے ہر دلعزیز گلوکار ندیم عباس لونے والا نے خواجہ غلام فرید کی کافی ”کیا حال سناواں دِل دا“ کو نئے ڈھنگ سے پیش کر کے حاضرین کے دل موہ لئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے معروف گیت پیش کئے تو نوجوان نسل جھومنے پر مجبور ہو گئی۔ انعام اللہ خان اور ممتاز ملک نے نظامت میں اپنے بھرپور جوہر دکھائے۔ ڈائریکٹر جنرل پِلاک نے اپنی استقبالیہ تقریر میں اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان کی ثقافت ایک حسین گلدستے کی طرح ہے۔ آج کل ثقافتی رنگا رنگی کو کسی ملک کی طاقت تصور کیا جاتا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے صوبوں میں بھی یہ رنگا رنگی موجود ہے۔ اگر پنجاب کی بات کریں تو ثقافت کے حوالے سے یہاں بہت تنوع نظر آتا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے پِلاک نے پنجاب کے بڑے اور تاریخی شہروں کے علاوہ صوفیاءکے درباروں پر علمی، ادبی اور ثقافتی پروگرام منعقد کرنے کا آغاز کیا ہے تا کہ تمام علاقوں کی ثقافت کی بھرپور نمائندگی ممکن ہو سکے۔ ملتان چونکہ ثقافتی، علمی اور ادبی حوالے سے زرخیز شہر ہے جس کی تاریخی اہمیت اسے عظیم اور روحانی نسبت معتبر بناتی ہے اس لئے اس سلسلے کا آغاز عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کے فلسفہ¿ انسانیت اور اولیاءکے شہر ملتان سے کیا گیا ہے۔ اس میلے میں اعلان کیا گیا کہ ہر سال کسی ادیب شاعر یا محقق کو خواجہ غلام فرید ایوارڈ دیا جائے گا۔ اس سال معروف سرائیکی شاعر جہانگیر مخلص کو خواجہ غلام فریدؒ ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ معروف ادیب اور محقق شوکت مغل کو خواجہ فرید پر ان کی تحقیقی کتاب پر پہلا شفقت تنویر مرزا ایوارڈ دیا گیا۔ مزید برآں ڈائریکٹر جنرل پِلاک نے کہا کہ جب انہوں نے ملتان میں میلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا تو بہت سے لوگوں نے اس سے اجتناب کرنے کو کہا کہ ملتان جا کر آپ کو بہت مایوسی ہو گی کیوں کہ وہاں کے لوگ اس میلے کی پذیرائی نہیں کریں گے مگر یہاں آ کر ہمیں مختلف نظارہ دیکھنے کو ملا۔ یہ دھرتی عظیم صوفی شاعر کے کلام سے رنگی ہوئی ہے اور یہاں کے لوگ محبت اور رواداری کے امین ہیں۔ جس خلوص اور محبت کا یہاں اظہار کیا گیا اس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ شنید ہے کہ بہت جلد ملتان میں ایف ایم ریڈیو کی نشریات بھی شروع ہو جائیں گی اور ایف ایم ریڈیو کا دفتر پِلاک کا ملتان میں سب آفس ہو گا جہاں مختلف تقریبات کا بھی انعقاد ہوتا رہے گا۔ خدا کرے ہم سب اپنے عظیم صوفیاءکے کلام سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لا کر اس معاشرے کو امن اور محبت کا گہوارہ بنا سکیں۔