سکردو کی ملتوی فلائیٹ اور مری بائیکاٹ مہم
لندن سے رضا عابدی سمیت پاکستان کے کئی شہروں کے شاعر‘ ادیب اور دانشور اسلام آبادکے نئے ائرپورٹ کی طرف رواں دواں تھے اور تقریباً سارے ہی بہت دور نکل کر راستہ تلاش کرتے ہوئے نئے ائرپورٹ پر پہنچتے رہے تھے چونکہ نگران وزیراعظم کی موجودگی میں جلدی جلدی سے نئے ائرپورٹ کا افتتاح کر لیا گیا مگر حالت یہ ہے کہ راستے میں ”ائرپورٹ“ کی نشاندہی اور ڈائریکشن بتانے والے بورڈ تک نہیں لگے تھے لہٰذا لوگ خوار ہو کر پہنچتے ہیں اور گاڑیوں‘ ٹیکسیوں کا اچھا خاصا بل بن جاتا ہے کیونکہ ہر کوئی بھٹک جانے کے بعد راہ راست پر آتا ہے اور ہم سارے لوگ ائرپورٹ پر اس لئے رواں دواں تھے کہ سکردو میں ایک کانفرنس ہونا تھی جس میں ہر شاعر ادیب اپنا فرض سمجھ کر بھی جانا ضرویر سمجھتا تھا کیونکہ ہم بلوچستان‘ گلگت اور سکردو وغیرہ کے علاقوں سے دور دور رہتے ہیں اور اس قسم کا موقع ان علاقوں میں آپس کی ملاقاتوں اور پھر ادب و ثقافت کی ترویج کےلئے بھی ضروری ہوتا ہے۔ میں اور امریکہ سے آئی ہوئی بینا گوئندی ایک ساتھ گھر سے نکلیں۔ راستہ بھول بھال کر ائرپورٹ پہنچے جو کہ فتح جنگ کی طرف واقع ہے۔ وہاں پہنچے تو پہلی نظر کشور ناہید پر پڑی اور اس کے بعد سلمیٰ اعوان‘ بشریٰ اعجاز‘ شائستہ نزہت‘ محبوب ظفر‘ ناصر علی سید‘ احمد عطا‘ سعود عثمانی‘ عباس تابش‘ رحمان فارس‘ سرفراز شہلا وغیرہ دکھائی دیئے۔ ہم سب پورڈنگ کے پاس لیکر سب جہاز پر اور بادلوں پر نگاہیں مرکوز کئے بیٹھے تھے کہ معلوم ہوا کہ فلائٹ کینسل ہو گئی ہے۔ کچھ دیر بعد موسم تو بہتر ہو گیا تھا مگر معلوم ہوا کہ ضدی اور ہٹ دھرم پی آئی اے فلائٹ Delay نہیں کرتا بلکہ بارہ بجے جائے تو جائے ورنہ پھر پی آئی اے کے ایسے بارہ بجتے ہیں کہ وہ صاف موسم میں جہاز لے کر نہیں جاتے اور سکردو جانے والوں کو یہ بات معلوم ہے کہ پی آئی اے کا یہ جہاز بارہ بجے نکلا تو گیا ورنہ موسم اچھا بھی ہو جائے تو جہاز نہیں جاتا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی کوئی خاص وجہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ باقی رہی مسافروں کی ذلالت کی بات تو اس بات سے نہ تو کسی کو دلچسپی ہے اور نہ ہی اس قسم کی خرابی اور دلبرداشتہ کیفیات کا کوئی ہرجانہ ہے۔ انسانی جذبات کی اہمیت کو یہاں پہلے بھی اہمیت نہیں دی جاتی لہٰذا پی آئی اے کا یہ رواج چلتا چلا جا رہا ہے۔ انکی فلائٹ‘ ان کا عملہ اور ان کی مرضی۔ لہٰذا فلائٹ کینسل کا سن کر سارے لوگ تتر بتر ہو گئے اور ہم خواتین جن میں سلمیٰ اعوان‘ شائستہ نزہت‘ بشریٰ اعجاز‘ شائستہ نزہت اور میں شامل تھے۔ ہم نے کافی پینے کا پلان بنایا اور پھر اس بات کے معلوم ہونے کے بعد کہ فلائٹ کل جائےگی۔ ہم سب نے ایک دن کیلئے مری جانے کا پروگرام بنا لیا تاکہ دوسرے دن ایک ساتھ سردیوں کیلئے سکردو کے موسم کیمطابق گرم شالوں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس لے کر دوبارہ مری سے ائرپورٹ ہی پہنچ جائینگے۔ شائستہ نزہت گاڑی کے انتظامات میں مصروف ہو گئیں اور جب ہم گاڑی میں بیٹھنے کو تمام خواتین لپکیں تو ائرپورٹ سے تمام دوست رخصت ہو چکے تھے جبکہ لندن سے آئے ہوئے رضا عابدی گاڑی کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ہم سب نے انکے پاس جا کر پوچھا کہ کوئی مسئلہ تو نہیں تو انہوں نے مسکرا کر کہا میری گاڑی آنے والی ہے۔ ہم خواتین نے جب مری جانے کا فیصلہ کیا تھا تو کہا گیا تھا کہ مری نہ جائیں کیونکہ مری بائیکاٹ مہم چل رہی ہے مگر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ خدا کی قدرت کے اس عظیم کرشمہ کے خلاف اس مہم میں ہم شریک نہیں ہوں گے لہٰذا ہم ایک گاڑی میں بیٹھے اور مری کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستہ بھر موسم خوبصورت تھا اور ایکسپریس وے سے ہم جلدی سے مری کے حسین پہاڑوں کے قریب ہوتے چلے گئے۔ مال روڈ پر اتر کر ہم نے ایک چھوٹی سی واک کی اور لوئر ٹوپہ رات قیام کرنے کےلئے روانہ ہو گئے۔ مری کا مال روڈ نسبتاً سنسان تھا۔ جس کا ہمیں افسوس ہوا۔ مری کے لوگوں کے رویوں پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ درست کرنے کا کہا جا سکتا ہے اور اس قسم کے پوسٹر بھی لگائے جا سکتے ہیں کہ وہ سیاحت کی اہمیت کے پیش نظر اپنے رویئے درست کریں تاکہ علاقے کی ترقی اور سیاحت جاری و ساری رہے مگر براہ راست ایک خوبصورت مقام کے ساتھ بائیکاٹ کی مہم چلانا کوئی دانشمندی کا کام نہیں ہے۔ دنیا بھر کے سیاحتی مقامات پر مہنگائی اور لوگوں کے رویے مختلف نظر آیا کرتے ہیں مگر باقاعدہ مہم چلا کر اس شہر یا خوبصورت مقام کا بائیکاٹ نہیں کر دیا جاتا۔ اس سلسلے میں مری کی انتظامیہ اور سیاسی شخصیات بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ ان کا کام محض ووٹ لینا ہی نہیں ہے بلکہ ووٹ کی اہمیت عوام کے مسائل حل کرنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ووٹ کو عزت تب ملے گی جب عوام کے مسائل پر توجہ دی جائےگی۔ انہی معاملات میں ہم پانچ خواتین ایک رات لوئر ٹوپہ رہ کر آئے اور مری کے حسین موسم اور منظروں سے دل و دماغ کو مہمیز کرتے رہے۔ اگلے دن واپسی پر دل اداس ہو رہا تھا اور یہ بات ساری خواتین کر رہی تھیں کہ ایبٹ آباد اور دیگر مقامات بھی خوبصورت ہیں مگر وہ مری کے ساتھ ہمارا رومانس ہے۔واپسی کے سفر میں ہم سب نے یہ محسوس کیا کہ جتنے گھنے جنگلات ماضی میں ہوا کرتے تھے اتنے اب نہیں رہے ہیں بلکہ درختوں کے درمیان خلا سا موجود تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کتنی مقدار میں درخت کاٹے گئے اور لکڑیاں بنا کر جلا دیئے گئے یا فرنیچر بنا لیا گیا مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ایک درخت بننے میں تیس چالیس برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور کاٹ دینے میں چند گھنٹے لگتے ہیں۔ سلمیٰ اعوان‘ بشریٰ اعجاز‘ بینا گوئندی اور شائستہ نزہت سارا وقت انہی مسائل اور انکے حل پر بات کرتے رہے۔ اس خوبصورت ٹرپ میں تمام دانشور خواتین شامل تھیں۔ سلمیٰ اعوان کو اس لئے ”لیڈر“ بنایا گیا کیونکہ وہ دنیا بھر کی سیاحت کر چکی ہیں اور عراق‘ فلسطین کے ایسے ایسے علاقوں میں بھی گئی ہیں جہاں جنگی ماحول میں مرد حضرات بھی جانے سے پہلے سوچتے ضرور ہیں مگر سلمیٰ اعوان نے سفر بھی کئے اور سفرنامے بھی لکھے۔ہم خواتین نے یہ یادگار ٹرپ کیا اور اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم سب ائرپورٹ جائیں کیونکہ اگلے دن فلائٹ نہیں گئی تھی .... ع
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
ہمیں معلوم ہوا کہ اب عید کے بعد یہ کانفرنس ہو گی۔ ہمیں رضا عابدی کا خیال آ رہا تھا جو لندن سے آئے تھے اور اب اس ترتیب سے پھر یہ دوست جمع ہو سکیں گے کہ نہیں یا پھر سکردو انتظامیہ پر ”سفارشی کلچر“ اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والے دبا¶ کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ کانفرنس کس نئی شکل اور رنگ روپ میں سامنے آتی ہے۔ یہ تو اب عید کے بعد ہی معلوم ہو گا۔ امید تو یہی کی جا سکتی ہے کہ اس خطے میں اس قسم کی کانفرنس کی اہمیت کے پیش نظر بہتر انتظامات کے ساتھ کانفرنس کا انعقاد کیا جائیگا۔ دراصل ہمیں پاکستان میں غصے‘ تنقید اور منفی رویوں کو ختم کر کے نئے رویوں کو اپنانے کی ضرورت ہے جس میں بدلے ہوئے حالات کو برداشت کرنا اور حقیقی معنوں میں ذاتیات سے ہٹ کر اس ملک کےلئے سوچنا شامل ہے اور جب ہم اس ملک کیلئے سوچیں گے پھر پی آئی اے والے بھی اپنا موڈ اور مزاج درست رکھیں گے اور انکے بارہ نہیں بجیں گے۔مجھے یاد ہے کہ پہلی مرتبہ امریکہ جاتے ہوئے جہاز میں بیٹھ کر مسافروں کو تین گھنٹے انتظار کروایا گیا تھا کیونکہ ایک پائلٹ تشریف نہیں لا رہے تھے کیونکہ انکے گھر میں ایک تقریب تھی۔ اب سوچ لیں کہ کیوں ساٹھ کی دہائی کی پی آئی اے اور آج کی پی آئی اے میں اتنا فرق آیا ہے۔ مجھے یہ تجربہ تو چند برس قبل ہوا تھا۔ یقیناً پی آئی اے کی تباہی میں انتظامیہ اور سفارشی بھرتیوں کا قصور ہے۔اسی طرح اس بات کو بھی مدنظر رکھ لیں کہ ہم مری رہ کر آئے ہیں۔ مری آج بھی اتنا ہی حسین ہے لہٰذا قصور مری کے پہاڑوں اور موسموں کا نہیں ہے بلکہ ہم انسانوں کا ہے تو وہ اپنے رویے ٹھیک کر لیں لیکن خدارا مری کو بے آباد نہ کریں اور اس خوبصورت شہر کے ساتھ ہمارا ”رومانس“ برقرار رہنے دیں.... اپنا خیال رکھئے گا۔!!!