پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جو ایک خاص نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی۔ہم کسی صورت اپنی نجی اور معاشرتی زندگی میں اللہ کی حاکمیت کے اصول سے پہلو تہی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔در حقیقت یہی وہ نکتہ ہے جو بر صغیر کی مسلم اقلیت کو ہندواکثریت سے جداگانہ قوم کا درجہ دینے اور مسلمانان ہند کیلئے علیحدہ وطن کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا باعث بنا۔ بد قسمتی سے ابتدائی مراحل پر ہی پاکستان کی نظریاتی اساس کیخلاف اندرونی و بیرونی چیرہ دستیوں کی شروعات نے محب وطن طبقے کو ششدر کر کے رکھ دیا۔تاہم یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ ان مذموم سازشوں اور خرابیء بسیار کے باوجود آج بھی دستور پاکستان اللہ کی حاکمیت کے قانون کی گواہی دے رہا ہے۔ دستور کے مطابق پاکستان میں اللہ اور رسول ؐ کے احکامات کے منافی کوئی قانون بن سکتا ہے نہ چل سکتا ہے۔اس کے باجود اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے خلاف جنگ یعنی سود کا نظام رائج ہو، اسکے باجود رشوت، کرپشن اور منی لانڈرنگ کا جن بے قابو ہو جائے،اسکے باجود دہشت گردوں کو سہولت کار بآسانی دستیاب ہوں،اسکے باجود ٹیکس چوروں کو ندامت کی توفیق نہ ہو،اسکے باجود چور ڈاکو اور قاتل دندناتے پھریں،اسکے باجود ملکی آبادی کا بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو،اسکے باوجود تنگدستی کے ہاتھوں خود کشیوں کے واقعات ہوں، اسکے باوجود غریب کے منہ کا نوالہ چھین کر بڑے بڑے صنعتکار قرضے معاف کروا کر اپنی تجوریاں بھرتے رہیں تو ہمیں ہمیشہ حکمرانوں کو موردالزام ٹھہرانے کی روش ترک کرکے اپنے اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لینا چاہئیے۔ ہمیں آئین کی شقوں پر عملدرآمد کے مطالبے سے کون روکتا ہے۔ ہمیں ذات، برادری دھڑے بندیوں اور طمع نفسانی سے آزاد ہو کر میرٹ، اہلیت اور قومی مفادکو معیار بنانے سے کون منع کرتا ہے۔ ہمیں شیطان کی پیروی کرنے کی بجائے رحمان پر بھروسہ کرنے اور اسی ذات پاک سے مدد مانگنے سے کون روکتا ہے۔ اگر ہم نظریاتی اساس کے حوالے سے بات کریں تو ہمیں ماننا پڑیگا کہ ہمارے نزدیک ترقی کی تعریف بھی عرف عام میں سمجھی جانے والی تعریف سے مختلف ہے۔ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو ہم ترقی نہیں کہہ سکتے۔ ایک طرف غریب علاج معالجے کی سہولت کے فقدان کی بنا پر مر رہے ہوں اور صاف پانی کی بوند کو ترس رہے ہوں مگر اشرافیہ کے گھوڑے سیب کھارہے ہوں اور قیمتی ائیر کنڈیشنڈ کاروں اور جہازوں میں آتے جاتے کتے ملائیاں اڑا رہے ہوں۔ تویہ ترقی نہیں۔ ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت سے ہماری ترقی کا پیمانہ تو یہ ہے کہ ملک میںکوئی شخص ناجائز ذرائع سے دولت کما سکے نہ کسی کو جائز کمانے سے روک سکے۔ ملک میں ارب پتی کھرب پتی ہوں نہ ہوں مگر کوئی شخص بھوکا نہ سوئے۔لندن امریکہ سے علاج ہو نہ ہو مگر کوئی بیمار ملک کے مقامی ہسپتال میں دوائی اور علاج معالجے کی سہولت سے محروم نہ ہو۔ ہمارے نزدیک ترقی یہ ہے کہ کوئی ہونہار بچہ والدین کی غربت کی بھینٹ چڑھ کر زیور تعلیم سے محروم نہ ہو جائے۔ہماری ترقی کا زاویہ یہ ہے کہ بندر بانٹ، بد عنوانی اور اقرباء پروری کی لعنتوں کا جڑسے خاتمہ ہو جائے۔ ہماری ترقی یہ ہے کہ کسی کے ہاتھوں عوام کی جان و مال غیر محفوظ نہ ہو۔ہماری ترقی کا ثبوت یہ ہو سکتاہے کہ شاہراہیں اور گھر محفوظ ہوں، ملک میں امن و انصاف کا دور دورہ ہو اور دہشت گرد، سہولت کار محفوظ نہ ہوں۔ ہاں ٹیکس چور، ڈاکو،قاتل اور چور اچکا چوہدری نہ ہو۔ ہماری ترقی یوں ہو سکتی ہے کہ روزگار کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور لانچوں یا کنٹینروں میں دم گھٹ کر مرنے کی بجائے نوجوانوں کو صلاحیت کے مطابق روزگار کے آسان مواقع دستیاب ہوں۔ہماری ترقی کا سرٹیفیکیٹ یہ ہوگا کہ وسائل میں اضافہ ہو نہ ہو مگر قومی خزانہ کی پائی پائی محفوظ ہاتھوں میں ہونے کی ضمانت ہو۔ہماری ترقی یہ ہے کہ ملک میں کوئی ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور قلت پیدا کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ جہاں تک ملکی سلامتی کے پہلو کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ہمیں واضح رہنا چاہئیے کہ یہ وہ نکتہ ہے جو ملکی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا محور ہے۔ہمیں ملک جان سے زیادہ عزیز ہے ملک ہے تو سب کچھ ہے اسلئے ہم کسی صورت بھی اس کی سالمیت پر آنچ منظور نہیں کر سکتے۔ ہم کسی کو اسکی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ایسی صورتحال میں لا محالہ پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج کا کردار فراموش نہیں کر سکتی۔یہ وہ شعبہ ہے جہاں پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور شوق شہادت سے بھرپور افسروں اور جوانوں کی کمی نہیں۔ اس میں بھی کوئی دو آراء نہیں کہ جنرل راحیل شریف کی با صلاحیت قیادت میں ہماری مسلح افواج اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے غافل نہیں، فوج کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لہٰذا بات جب بھی ملکی سلامتی، دفاع یا اس سے منسلک خارجہ و داخلہ امور کی چلے تو ہم فوجی قیادت کے جائز مقام اور جائز مشاورت کے کردار سے انکار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی اس حقیقت سے انکار پر مصر رہے تو اس میں قوم کی کسی خدمت کا پہلو نظر آتا ہے نہ ملکی سلامتی کی کوئی دلیل۔ملکی سلامتی کیلئے سیاسی قیادت اور عوام کا کردار بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ ذمہ داریاں اپنی اپنی سطح پر سب کی ہیں تاہم ایک بات طے ہے کہ ملکی سلامتی کی سب سے بڑی ضمانت ملی وحدت ہے جو آج بھی نظریاتی اساس میں ہی پنہاں ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024