حلقہ 125 کا الیکشن کالعدم قرار پاتے ہی ہرسو ہاہاکار مچ گئی۔ ہر اخبار، ٹی وی چینل، سوشل میڈیا، ریڈیو پروگرام پر صرف اسی کے بارے میں ہر کوئی اپنی رائے دیتا نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی رائے قائم کرنا ہر ذی شعور پاکستانی کا حق ہے لیکن اپنی رائے کو دوسرے پر ٹھونسنا شاید دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ الیکشن ایک سیاسی اور جمہوری عمل ہے جس کے قانونی تقاضے بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے الیکشن لڑنے کے آداب۔ ہار جیت جمہوریت کا لازمی حصہ ہے۔
اس عمل میں سے ہر امیدوار کو گزرنا پڑتا ہے اور یقیناً یہ ایک صبر آزما اور مشکل عمل ہے۔ ایسے ہی عمل سے پاکستان تحریک انصاف بھی دوچار ہے۔ ان کے طرز عمل میں کتنا ضبط اور کتنا حوصلہ ہے اس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ دشنام طرازی اوئے طوئے کے فقرے دھاندلی کی گردان اور دھرنے یہ سب ایک ہی بات کی غمازی کرتے ہیں کہ دھرنا تحریک، انصاف کیلئے نہیں دھونس اور ہٹ دھرمی سے بات منانے کیلئے چلائی گئی۔ اسی لئے جناب عمران خان نے فیصلے کے بعد واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ فیصلہ دھرنے کی وجہ سے آیا۔ یعنی اگر دھرنا نہ ہوتا تو ٹربیونل کا فیصلہ کچھ اور ہوتا اور شاید حقیقت بھی یہی ہے۔ فیصلے کے مندرجات سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جناب جج صاحب نے الیکشن سے پہلے سازش، الیکشن کے دوران دھاندلی، جعلی ووٹ اور الیکشن عملے کے ساتھ ساز باز جیسے تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے، جناب سعد رفیق صاحب کو بری الذمہ قرار دیا۔
اس کا منطقی نتیجہ تو پٹیشن کو مسترد کرنا ہی ہونا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس دوبارہ الیکشن کرنے کے احکامات صادر کرنا محیر العقل بات ہی ہے۔
جج صاحب نے تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تک قرار دیا کہ الیکشن کے عملہ بشمول ریٹرننگ آفیسر اور پریذائڈنگ افسران، کسی شخص کی بدنیتی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ان باتوں کو ماننے کے بعد الیکشن دوبارہ منعقد کرنے کے احکامات کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔
یاد رہے کہ الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا ہر دو فریق کا حق ہے۔ اگر فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آتا تو کیا وہ اس کو اپیل میں چیلنج نہ کرتے۔ ابھی تک جتنی بھی الیکشن پٹیشن کے فیصلے سامنے آئے ہیں، تمام کے تمام اپیل میں چیلنج کئے گئے ہیں۔
اس آئینی اور قانونی حق کا استعمال میرے نزدیک اتنا ہی مقدس اور مقدم ہے جتنا عوام کے پاس الیکشن میں جانے کا عمل۔ اس مقدمے میں ایک شخص سامنے نہیں آیا جس نے کہا ہو کہ اس کا ووٹ کسی اور نے ڈال دیا یا کسی قسم کی کوئی دھاندلی ہوئی۔ کسی شخص نے گواہی نہیں دی کہ اس کے پاس فارم کی کاپی میں ووٹ کی گنتی اور ہے اور نتیجے سے مختلف ہے۔
کچھ حلقوں میں شدومد کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ ضمنی انتخاب میں حصہ لینا ایک بہتر اور احسن قدم ہوتا اور اپیل کا حق استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ان حلقوں نے شائد فیصلے کا بغور جائزہ نہیں لیا۔ اگر وہ دوبارہ فیصلے کو پڑھیں تو وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس طرح کے فیصلے اگر کالعدم قرار نہ دیئے جائیں تو ہر الیکشن عملے کے رحم و کرم پر ہو کر رہ جائے گا۔
ایک شخص کی غلطی کی سزا ڈھائی لاکھ عوام کو کیوں؟ ایسی نظیر دنیا کے کسی بھی عدالتی نظام میں نہیں ملتی۔ اگر سعد رفیق صاحب کی خواہش (ضمنی انتخاب میں حصہ لینے) کا احترام کر لیں تو پھر کیا یہ اصول دوسروں پر لاگو نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ہمارا ملک ضمنی انتخابات پر ہی چلتا رہے گا اور یہ کیا گارنٹی ہے کہ ضمنی انتخابات میں کوتاہیاں نہیں ہوں گی۔ کیا اس بارے میں کسی نے کچھ سوچا ہے یا ہم جذبات میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے۔
سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہی نہیں نا مناسب بھی ہے لیکن الیکشن میں جانا سعد رفیق کا حق ہے جسے وہ مقدمہ جیتنے کے بعد بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024