احتجاج کے لئے حالات ہیں نہ موقع، عمران اور طاہر القادری امن کے لئے کردار ادا کریں: سمیع الحق ‘ مذاکرات سبوتاژ کرنے والی قوتیں سرگرم ہیں: یوسف شاہ،طالبان بات چیت جاری رکھنے پر متفق ہیں: پروفیسر ابراہیم
لاہور+ پشاور ( سپیشل رپورٹر+ بیورو رپورٹ + ایجنسیاں) جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ بیرونی طاقتیں ملک میں امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتی ہیں اسلئے وہ امن مذاکرات میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔ مسجد احسان الرحیم میں تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو میں مولانا سمیع الحق نے کہا زندگی کا ہر شعبہ چاہے وہ سیاست دان ، جرنیل ، یا عام آدمی ہو سب موت کے خوف میں مبتلا ہیں ملک میں امن قائم کرنے کیلئے سب کو ایک آواز بننا پڑیگا۔ حکومت کا فرض ہے کہ ملک میں امن قائم کرے، امن ہو گا تو ملک میں ترقی ہو گی ، روٹی کپڑا مکان کا مسئلہ حل ہو گا۔ فوج ملک میں امن کی علمبردار ہے سب کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، مذاکرات میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں کیونکہ بیرونی طاقتیں پاکستان میں امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتی ہیں۔ آپریشن کا مشورہ دینے والے ملک دشمن ہیں، مذاکراتی کمیٹیاں جلد ملیں تو جنگ بندی میں توسیع ہوسکتی ہے۔ غیروں کے کہنے پر ملک پر جو بوجھ ڈال گیا تھا اسکو اتارنے کا وقت آگیا ہے۔ کچھ لوگ غلط تاثر دے رہے ہیں کہ مذاکرات ختم ہوگئے ہیں۔ کسی طرف سے بھی مذاکرات ختم ہونے کا اعلان نہیں ہوا ہے کیونکہ دونوں فریق امن چاہتے ہیںتاہم رکاوٹیں موجود ہیںحکومت کیلئے مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں،ملک میں امن قائم کرنے کیلئے حکومت کو یکسوئی کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حکومت کے اختلافات اپنی جگہ لیکن تحریکیں اور جلسے جلوس کرنے سے پہلے ملک میں دہشت گردی کی آگ بجھانے اور امن کی ضرورت ہے، احتجاج کیلئے حالات ہیں نہ موقع۔ عمران خان، طاہر القادری امن کے حق میں تحریک چلاتے ہمارے مشن کا ساتھ دیتے تو بہتر ہوتا۔ دونوں اس کیلئے کردار ادا کریں۔ امن قائم کرنے کیلئے حکومت اور فوج ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ میں حکومت اور طالبان سے اپیل کروں گا کہ وہ قوم کو امن کی خوشخبری دیں۔دوسری جانب طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ طالبان اور حکومتی مذاکرات میں حکومت کی جانب سے خاموشی مایوس کن ہے۔ آج طالبان کمیٹی کا مسلسل چوتھے دن طالبان شوریٰ کیساتھ رابطہ ہورہا ہے جس میں مذاکراتی عمل پر تفصیلی بات چیت جاری ہے۔ طالبان شوریٰ کو مولانا سمیع الحق کا پیغام بھی پہنچایا ہے جس پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ طالبان تو رابطے میں ہیں لیکن حکومتی خاموشی مایوس کن ہے کیونکہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ طالبان کمیٹی اور طالبان شوریٰ حکومت کیساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر متفق ہے۔ ادھر طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ مذاکرات ختم نہیں ہوئے دونوں جانب سے مشکلات ہیں۔ دونوں جانب سے جنگ بندی کا اعلان ہونا چاہئے۔ بے اعتمادی کی فضا ہے لیکن مایوس نہیں ہیں۔ رجب کا مبارک مہینہ ہے جس میں کفار بھی ایک دوسرے پر حملے نہیں کرتے۔ حکومت اور طالبان دونوں کو اختیار ہے اگر وہ اپنی مذاکراتی کمیٹیوں سے مطمئن نہیں تو انہیں بدل لیں، مذاکرات کا اب دوسرا دور شروع ہونا چاہئے، اسکے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، جیسے ہی دونوں فریق مذاکرات کیلئے کسی مقام پر متفق ہوجائیں گے، مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہوجائیگا۔