کون نہیں جانتا۔ ہما ایک ایسا پرندہ ہے۔ جس کے کاندھے پر بیٹھ جائے۔ وہ شخص بادشاہ بن جاتا ہے۔ الیکشن 2013ءہونے میں اب گھنٹوں کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ چرخ اقتدار پر ہما محو پرواز ہے۔ بے شمار کاندھے اس کی سرگرم چشیدہ اور جہاں دیدہ نگاہوں کی زد میں ہیں۔ سب جانتے اور مانتے ہیں۔ الیکشن ہارنے والا ہار نہیں مانتا۔ صرف دھاندلی کا الزام لگاتا ہے۔ الیکشن کمشن کی طرح ہما بھی نہایت محتاط روی سے کام لے رہا ہے۔ آنے والے بادشاہ کے کاندھے کا انتخاب ہما کے لئے بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ جتنا الیکشن کمشن کے لئے شفاف اور شک و شبہ سے بالا انتخابات کا انعقاد ہے۔
الیکشن کمشن کی طرح ہما کے بھی اپنے مشاہدات ہیں۔ ہما کو یہ تو یقین ہے۔ وہ جس کے کاندھے پر بیٹھ جائے۔ وہ بادشاہ بن جاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں۔ بادشاہی ہر ایک کو راس بھی آجائے ۔مغل بادشاہ نصیرالدین ہمایوں‘ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین کا بیٹا تھا۔ اس کا نام بھی خوش قسمتی کا مصدر تھا۔ مگر وہ کبھی اسمِ بامسمیٰ نہیں کہلایا۔ تاریخ کے اوراق آج بھی گواہی کے لئے موجود ہیں۔ ہمایوں ساری زندگی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ اس کی موت بھی ایک ٹھوکر سے ہوئی۔ ہما کو یہ بھی معلوم ہے۔ کوئی شیر شاہ سوری اچانک پیدا ہو جاتا ہے۔ جو ہما کے ذریعے ورثے میں ملی ہوئی بادشاہی کسی بھی ہمایوں سے چھین لیتا ہے۔
پرواز کے دوران ماضی کے مناظر بھی ہما کے پیش نظر ہیں۔ بے شمار گندم نما جو فروش حکمران بھی گزرے ہیں۔ جو ہما کے لطف و کرم سے تخت نشین ہوئے۔ لاتعداد کندہ نا تراش ایسے بھی تھے۔ جو اسی ہما کے طفیل رعایا پہ راج کرتے رہے۔ ہما بند گلی کی پیداوار کئی مطلق العنانوں کو بھی جانتا ہے۔ جن کو ہما کی دوش نشینی کے باعث مسند جاہ ملی۔ ہر راعی نے رعایا سے اپنا حق تو وصول کیا۔ مگر عوام کو ان کے حقوق سے ہمیشہ محروم رکھا۔ ہما کو اس بات کا بھی ادراک ہے۔ انسان اقتدار‘ اختیار اور طاقت ملنے سے بدلتا نہیں‘ بے نقاب ہو جاتا ہے۔ قوت ملنے کے بعد بے نقاب ہونے والوں سے ہما بچ کر گزرنا چاہتا ہے۔
تیر‘ ترازو‘ بلا اور شیر ایک دوسرے کو زیر اور ڈھیر کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ مگر نگاہیں سب کی ہما پر ہیں۔ شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلانے کے دعویدار سب ہیں۔ لیکن یہ سارے وعدے ہما کی دوش نشینی تک ہیں۔ ہما لوڈشیڈنگ سے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے جہاں کا سماں بھی دیکھ رہا ہے۔ ہما سوئی گیس کے فقدان سے سرد چولہوں اور ٹھنڈے تندوروں کو بھی نہیں بھولا۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا معاشرہ ہما کے سامنے ہے۔خون کی ندیاں اور لاشوں کے انبار دیکھ کر ہما بھی اشکبار ہے۔ بارود کی دھواں دار اور آلودہ فضا میں ہما کے لئے بھی سانس لینا دشوار ہے۔
ہما نئے بادشاہ کا دوش تلاش کرتے ہوئے سوچ رہا ہے۔ شوکت وشاہی کسے ملنی چاہئے؟ تخت و تاج کے لائق کون ہے؟ رعایا کےلئے باعث رحمت راعی کون ہو سکتا ہے؟ جس کے قلب و ذہن اس احساس سے لبریز ہوں۔ اگر راعی کا رعایا پر حق ہے۔ تو پھر بھی راعی سے اپنے حقوق لینے کی حق دار ہے۔ ہما وہ کاندھا ڈھونڈ رہا ہے۔ جو اداس بلبل کے لئے روشنی دینے والا جگنو بن جائے۔ ہما کو سب ذرا ذرا یاد ہے۔ گزرے زمانوں میں شیر شاہ سوری جیسے حکمرانوں کے کاندھوں پر بھی ہما بیٹھا تھا۔ شیر شاہ نے اسے کبھی مایوس نہیں کیا۔ برہمن کی بیوی پر شیر شاہ کے بیٹے نے ستم کیا۔ شیر شاہ نے بیٹے کی بیوی کو برہمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
ہما آج بھی شیر شاہ اور اکبر جیسے رعایا پرور حکمران دیکھنے کا خواہاں ہے۔ الیکشن میں حاکم وقت کا انتخاب عوام نے کرنا ہے۔ ہما عوام کے فیصلے کا بھی احترام چاہتا ہے لیکن اس کا رعایا سے یہ بھی تقاضا ہے۔ رعایا اپنا راعی منتخب کرتے وقت خوب غور کرے۔ یہ راعی محض راعی نہیں ان کا مستقبل ہے۔ نیا حاکم پانچ سال تخت نشین رہے گا۔ ان پانچ برسوں میں بے شمار لمحے‘ لاتعداد گھڑیاں‘ ان گنت دقیقے‘ کروڑوں منٹ‘ لاکھوں گھنٹے اور سینکڑوں دن ہوں گے۔ جو عوام کو دن گن گن اور راتیں اختر شماری کرکے گزارنے پر مجبور کر دیں گی۔ ہما کو بھی رعایا کی زبوں حالی اور راعی کی بے اعتنائی پر قلق ہو گا۔ مگر تب کچھ نہیں ہو سکے گا۔ اب سب کچھ ہو سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38