آج طلوع ہونے والا سورج جو دن ساتھ لائے گا کہا جاتا یہ وہ دن ہے جو قوم کو اپنے مستقبل کا اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرے گا مگر یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے گزرا وقت اس قوم کی جھولی میں ایسے کئی مواقع ڈال چکا ہے لیکن ہر بار یہی دیکھنے میں آیا کہ قوم نے شعور اور بیداری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے جذباتی رومیں بہہ جانے یا کسی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہو جانے کا مظاہرہ ہی کیا ہے اور نتیجے میں کبھی کہیں سے کوئی بھلائی مل گئی تو اس کا مقدر‘ ورنہ پھر نئے مسیحا کا انتظار اور پھر یہ قوم نئے فریب کھانے کے لئے تیار‘ دوسری جانب یہ تلخ حقیقت بھی منہ چڑھا رہی ہے کہ اس ملک میں اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق رائے دہی کا اختیار کب‘ کس کو اور کتنوں کو ملا ہے‘ علاقائی اثر و رسوخ‘ دولت سے خریدی گئی قوت سے مرعوب اور اکثر و پیشتر ضرورتوں کی زنجیروں میں بندھے لوگ خود کو ”حال“ سے چنگل سے نہیں نکال سکے ”مستقبل“ کا فیصلہ کیا کریں گے ووٹ لینے کے لئے جنہیں خود فریبی کے بانس پر چڑھا دیا جاتا ہے ”حکومت ان کے ذریعہ ہے حکومت ان کے لئے ہے“ حالانکہ ناحق ان بیچاروں پر تہمت ہے مختاری کی“ ایک ٹی وی اینکر پرسن نے گذشتہ دنوں اندرون سندھ کے کئی دیہات میں لوگوں سے سوال کیا ”ووٹ کس کو دو گے“؟ سب نے ایک جیسا جواب دیا ”جس کو سائیں بولے گا“ دوسرا سوال کیا گیا سائیں (وڈیرا یا جاگیردار) کیوں‘ اپنی مرضی کیوں نہیں؟ پھر بے چارگی اور بے بسی میں لتھڑا جواب ”سائیں سے قرض جو لے رکھا ہے“ یہ اندرون سندھ ہی نہیں پنجاب‘ خیبر پی کے اور بلوچستان میں بھی کسان‘ ہاری یا کھیت مزدور نسل در نسل سائیں کے قرضے کے بوجھ تلے دبے چلے آرہے ہیں سارا سال خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود گزر اوقات کے لئے سائیں کے قرضے کی محتاجی‘ جبکہ سائیں کے لئے ہر سال نئے ماڈل کی پراڈو‘ لینڈ کروزر‘ غیر ملکی دورے‘ جمخانہ‘ پی سی‘ ایواری‘ شرٹین میں صرف ایک نشست میں اتنے بل کی ادائیگی جو ہاری کے کئی ماہ کے گزارے کا ذریعہ بن سکتی ہے پھر ہمارے لوگوں میں احمقانہ قسم کی مروت اور بیہودہ قسم کا لحاظ بھی بہت ہے بھکر میں میرے آبائی گھر کے نزدیک واقع کھیت کا مزارع چاچا نیازا ایک بلدیاتی الیکشن میں ایک ایسے امیدوار کو ووٹ دیتا پایا گیا جو اس کے نزدیک ہرگز اس قابل نہیں تھا حیرت آمیز تجسس سے پوچھا۔ چاچا یہ کیا؟ لہجے میں تاسف کی ہلکی سی جھلک محسوس ہوئی ”پتر‘ کیا کراں ملک ٹرکے بوہے تے جو آگیا ہیئی“ اتنی سی بات پر مروت و لحاظ کا مارا چاچا نیازا یہ نہ سوچ سکا کہ ملک اس کے درازے پر اپنے مطلب کے لئے آیا ہے اس سے پہلے اسے یہ توفیق کیوں نہ ہوئی وہ اس لئے آیا ہے کہ چاچا نیازا کا ایک ووٹ اس کیلئے ان گنت ”مراعات“ کروڑوں کے فنڈز سیاسی و دیگر فوائد اور وزارت تک کے دروازے کھول دے گا ایسے دروازے کھلوانے کے لئے پانچ سال میں چند لمحوں کے لئے اس کے دروازہ تک آنا اور اس کے کھردرے ہاتھوں کو مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے نرم و نازک ہاتھوں میں اندرونی کراہت کے ساتھ دبانا کیا برا سودا ہے۔ اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں ایک نہیں لاکھوں چاچا نیازے نظر آئیں گے احمقانہ ضرورتوں کے مارے‘ بیوقوفانہ لحاظ میں جکڑے‘ یہ کسی انقلاب کسی تبدیلی کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟؟؟
اس ملک کی فضا میں ایک نعرہ گونجا ”ملک کے حقیقی مالک غریب ہوں گے“ جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کریں گے‘ ملک کے طویل و ارض میں فریب خوردہ مزدور اور کسان سمجھا نجات کا لمحہ جانفزا آن پہنچا ہے مگر آنکھ کھلی تو جاگیرداری کا عفریت اسی طرح منہ پھاڑے کھڑا تھا ہاں سرمایہ داری اگر فیکٹریوں کارخانوں کا نام ہے تو چشم فلک نے دیکھا پاکستان کا مانچسٹر کہلانے والا فیصل آباد‘ ہزاروں محنت کشوں کا ذریعہ روزگار‘ لاہور ملتان‘ دادو خیل اور لاکھوں محنت کشوں کو پالنے والا کراچی ویرانیوں میں تبدیل‘ ہر آن دھواں اگلتی چمنیاں خاموش‘ مشینوں کی کھڑکھڑاہٹ پر سکتہ طاری جو محنت کشوں کیلئے مسحورکن موسیقی سے بڑھ کر‘ کیا ستم ظریفی ہے جاگیردار بھی وہیں۔ سرمایہ دار بھی مزید سرمایہ دار‘
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزورمات
ہاں‘ بلاشبہ یہ مکر کا سر چڑھا جادو ”زندہ ہے زندہ ہے“ کے نعرے فقط مزدور کا سرمایہ حیات‘
پھر تبدیلی کے نعرے پھر دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے اور پاکستان کے عوام نشہ کی طرح پھر فریب کا شکار ہونے کو تیار‘ جہاں سیاسی جماعتیں سیاسی فرقے بن گئے ہوں‘ جہاں سیاسی لیڈر پیشوا¶ں کی طرح پوجے جاتے ہوں ایسے عوام ایسی قوم کے ذریعہ اگر کوئی تبدیلی کا آرزومند ہے تو خدا اس پر رحم کرے کیا قرآن حکیم کا یہ ارشاد جھٹلایا جا سکتا ہے جس کا مفہوم ہے جیسے تم ہو ویسے تم پر حکمران مسلط کئے جائیں گے۔ آج پاکستانی قوم کے شعور کا امتحان ہے یہ حکمران منتخب کرے گی یا مسلط کروائے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024