عام انتخابات کی مختصر تاریخ
نعیم الحسن
پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات دسمبر 1970ءمیں کروائے گئے۔ ان انتخابات سے پہلے آزاد مملکت میں حکومتی امور اور قانون سازی کےلئے اگرچہ نمائندہ ادارے تو موجود تھے تاہم یہ سب 1947ءکے آزادی ایکٹ کے تحت سابقہ نظام ہی کا تسلسل تھے۔ ملک میں پہلی مرتبہ 1951ءمیں پنجاب ،سندھ اور سرحد کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے گئے۔ اسی طرح مشرقی پاکستان میں 1954 میں صوبائی سطح پر انتخابات کا انعقاد ہوا۔
1958ءمیں ملک میں مارشل لاءکے نفاذ کے بعد 1962ءمیں ہونے والے الیکشن پہلے بالواسطہ انتخابات تھے۔1966ءمیں ملک بھر کی اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس میں عام انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کروانے کا مطالبہ کر کے یہ سلسلہ وہیں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی جب 1956ءکے آئین کے تحت ملک میں عام انتخابات اسی اصول کے تحت ہونے جا رہے تھے کہ 1958ءکا مارشل لاءنافذ کر دیا گیا تھا۔فروری 1969ءمیں صدر ایوب خان کے ساتھ ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اس مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا۔ ملک میں جنرل یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے پر 1970ء میں پانچوں صوبائی اکائیوں کو بحال کر کے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا گیا۔
1970ءکے عام انتخابات کو ملکی تاریخ میں ہمیشہ سے انتخابی عمل کا نقطہ عروج قرار دیا جاتا رہا ہے۔ انتخابات میں شریک سیاسی و مذہبی جماعتوں نے پہلی مرتبہ پارٹی منشور کی بنیاد پر پوری قوم کو اس انتخابی عمل میں متحرک کیا۔ بلاشبہ عوام کی شرکت کے نتیجے میں ان انتخابات میں 60 فیصد ٹرن آﺅٹ ریکارڈ کیا گیا ۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان میں 3 سو کے ایوان میں جس طرح 160 نشستوں پر تنہا شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی اس کا حقیقی تقاضا اکثریتی جماعت کو اقتدار کی منتقلی تھا۔ ان انتخابات میں دوسری بڑی کامیابی پاکستان پیپلزپارٹی نے حاصل کی جسے پورے مغربی پاکستان میں 81 نشستیں حاصل ہوئیں۔ ان انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی‘ جمعیت علما اسلام کے بعد جماعت اسلامی نے بھی ایک دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تاہم حکمران جماعت کونسل مسلم لیگ اور کنونشن مسلم کو ان انتخابات میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے عوامی لیگ کی کامیابی کے علاوہ محض دو نشستوں پر مسلم لیگی رہنما مرحوم نور الامین اور آزاد امیدوار آنجہانی راجہ تری دیو رائے کو کامیابی نصیب ہوسکی۔ یہ انتخابات پارٹی منشور کی بنیاد پر لڑے گئے۔ سیاسی مفاہمت میں تاخیر ، بیرونی قوتوں کی ساز باز اور حکومت وقت کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کے اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نے بالآخر قوم کو سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے دوچار کر دیا۔ باقی ماندہ پاکستان میں پیپلزپارٹی نے اکثریت کی بنیاد پر حکومت بنائی تو اس کی نگرانی میں مارچ 1977ء میں دوسری مرتبہ انتخابات کروائے گئے۔ الیکشن سے قبل 9 جماعتوں پر مشتمل انتخابی اتحاد پاکستان قومی اتحاد PNA وجود میں آیا۔ عوام کی بھرپو ر شرکت سے اس بار بھی ٹرن آﺅٹ 58 فیصد رہا۔ 200 نشستوں میں سے پی پی پی نے 151 سے کامیابی حاصل کی۔ قومی اتحاد کی جماعتوں نے پیپلزپارٹی پر دھاندلی کا الزام لگا کر پورے ملک میں تحریک کا آغاز کر دیا۔ حکومت کا پی این اے سے معاہدہ بھی طے پا گیا تھا کہ جنرل ضیاءالحق نے 5 جولائی1977 ءکو ملک میں مارشل لاءنافذ کر دیااور پی پی پی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ سیاسی عمل سے خائف ضیاءالحق نے آئین کا حلیہ بگاڑ کر بادل نخواستہ فروری 1985ء میں سرکردہ سیاسی جماعتوں کے بغیر انتخابات کروا تو دئیے لیکن 29 مئی 1988ء میں ان اسمبلیوں کو بھی شخصی اقتدار کی قربان گھاٹ پر اتار دیا گیا۔ صدر جنرل ضیاءالحق کی طیارے کے حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد اکتوبر 1988ء میں ایک مرتبہ پھر پورے ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کیلئے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کیلئے اس مرتبہ ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی کوششوں سے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے متعدد سیاسی و دینی جماعتوں کو ایک جگہ جمع کیاگیا۔ پارلیمانی عمل بمشکل چلنے کے قابل ہوا تھا کہ سول و فوجی نوکر شاہی کی مداخلت کے بعد 6 اگست 1990ءکو اسمبلیاں تحلیل کر کے دوبارہ انتخابات کروائے گئے۔ عام انتخابات ہوں یا اس سے قبل ہونے والی سیاسی و جمہوری جدوجہد انتخابی عمل کو عوام کی نظروں میں ہمیشہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ عام لوگوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ چنانچہ 1990ء کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ کی حکومت اور نوکر شاہی کے درمیان بھی یہ فطری کشمکش حکومت کی برطرفی کے اقدام پر ختم ہوئی ۔
1993ء کے انتخابات کے بعد نومبر 1996ء میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو الزامات لگا کر دوبارہ برطرف کر دیا گیا ۔ اس بار فروری 1997ءمیں ایک بار پھر انتخابات کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ کی منتخب حکومت بلاشبہ ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ اپنی لبرل پالیسیوں پر عمل کرنے میں مصروف تھی کہ وزیراعظم نوازشریف کی اس مقبولیت سے خائف ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے سرخیل جنرل پرویز مشرف نے ریٹائرڈ کئے جانے کے فیصلے کو قبول کرنے کی بجائے ملک میں مارشل لاء لگا کر جمہوری عمل کو ایک مرتبہ پھر زنجیروں میں جکڑ دیا۔ دسمبر 2000ء میں مسلم لیگ کے سربراہ میاں نوازشریف کو خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیا۔ اس کے بعد اکتوبر 2002ءمیں ان کی جماعت اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں پر شب خون مار کر عام انتخابات میں من پسند افراد کی حکومت تشکیل دے دی گئی۔ 2007ءمیں عام انتخابات کے اعلان کے بعد جس طرح ملک کی بڑی جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ، اس میںانتخابی مہم کے دوران دونوں بڑی جماعتوں کے جلسوں میں فائرنگ اور بم دھماکے جیسے واقعات بھی ہوئے جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کو سیاسی ہی نہیں جسمانی طور پر بھی منظر سے ہٹا دیا گیا۔ ملک میں آج 65 برسوں میں پہلی مرتبہ آئینی ترامیم کے ذریعے ایک آزاد الیکشن کمیشن اور نگران حکومت قائم ہے اور یہ اس جمہوری عمل ہی کا ثمر ہے کہ چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتیں آزاد و غیر جانبدار ماحول میں اس الیکشن میں حصہ بھی لے رہی ہیں اور اسے ناپسند کرنے والے اس کے خلاف احتجاج کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔