سسندھ کی سرزمین پر باب الا سلام کی درخشاں داستان

Mar 11, 2025

سراج الحق

متحدہ ہندستان میںاسلام کی آمد سے پہلے سندھ میں بدھ مت اور ہندومت کا راج تھا۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ محمد بن قاسم کے فوجی حملے سے پہلے اسلام اس خطے میں مسلمان مبلغین، تاجروں اور سیاحوں کے ذریعے پہنچ چکا تھا۔مکران جو اس زمانے میں سندھ سے متصل ملک تھا وہاں اسلامی حکومت کی جانب سے والی مقرر کئے جاتے تھے،لیکن عامتہ الناس میں اسلام کی مقبولیت فتح سندھ کے بعد ہوئی اور لوگوں نے جوق درجوق اسلام قبول کیا۔اسی لئے صوبہ سندھ کو بجا طور ـ'باب الاسلام' کا نام دیا گیا ہے۔یہاں اسلام کی آمد کا تاریخی دن 10 رمضان المبارک 93ہجری بمطابق 16 جون 711 ء   سے منسوب ہے۔

 ایک روایت کے مطابق جنوبی ہند میں "ملابار" کو اسلام کا پہلا مرکز قراردیا جا سکتا ہے۔جہاں شق القمر کا معجزہ، ملابار کے "زمورن" نامی راجا نے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا اور اس واقعہ کا اندر اج روزنامچے کے سرکاری رجسٹر میں کروایا تھا۔ اسے عرب سے آئے ہوئے لوگوں سے معلوم ہوا کہ عرب میں ایک رسول پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے یہ معجزہ دکھایا ہے تو راجا نے فوراََ اسلام قبول کرلیا اور تخت سلطنت اپنے ولی عہد کے سپرد کرکے کشتی میں سوار ہوکر، حضور ؐ کی زیارت کی خاطر روانہ ہ گیا ،لیکن راستے ہی میں وفات پائی اور یمن کے ساحل پر مدفون ہوا۔
سندھ کی فتح نبی کریم ؐ کی د عائے طائف کا پھل تھا۔جناب رسول رحمتؐ کو جب طائف کے سرداروں نے جھٹلایا، ہر طرح سے ذہنی و جسمانی اذیت سے دوچار کیا، جسم اطہر زخموں سے لہولہان کروادیاتو‘اس موقع پر جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی،اے محمدؐآپ حکم دیں۔۔۔۔۔۔۔ اگر چاہیں  تو پہاڑوں کا فرشتہ انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دے۔ نبی رحمت ؐ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ٰان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔" (صحیح بخاری) چنانچہ محمد بن قاسم اسی بنی ثقیف قبیلے کا چشم و چراغ تھا اور یہ آنحضور کی دعائے طائف کا اثر تھا۔سندھ پر اسلامی حکومت کی جانب سے فوج کشی کے 5 بڑے اسباب تھے:
(1) 12 ہجری میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓکے دور میں ایرانی فوج سے جنگ ہوئی۔ حضرت خالد بن ولید مسلمان فوج کے سپہ سالار تھے۔ اس "جنگ ذات السلاسل"  میں سندھ کی فوج نے ایرانیوں کا ساتھ دیا۔
(2) جنگ قادسیہ: 
جنگ ذات السلاسل کے دو برس بعد 14ہجری میں جنگ قادسیہ ہوئی۔ ایران کے بادشاہ یزدگرد نے بھرپور تیاری کی، سندھ کے راجا نے ایرانیوں کی مدد کی۔ انہیں فوجی دستے بھیجے اورجنگی ہاتھی روانہ کئے۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان سندھ کے راجا کے ہاتھیوں نے پہنچایا۔ جواب میں ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم مارا گیا۔
(3) خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓکے زمانے میں اسلامی حکومت مکران تک پھیل چکی تھی۔ جس وقت مسلمانوں نے مکران کو فتح کیا تو سندھ کے فوجی بھی ایرانیوں کے ساتھ مل گئے۔ سندھ کی برہمن حکومت نے اسلامی حکومت کے دشمنوں کی مدد کی۔
(4) سن 78 ہجری میں سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کو مکران کا والی بنا کر بھیجا گیا۔ عرب سردار محمد بن حارث علافی نے اس کے خلاف بغاوت کی اور اسے قتل کردیا۔ اسلامی حکومت سے بغاوت کرنے والے تمام علافی سندھ آ گئے۔ جہاں کے راجہ داہر نے ناصرف انہیں پناہ دی بلکہ عزت و اکرام سے نوازا، اور محمد علافی کو اپنے مقربین میں شامل کرلیا۔ اس طرح اس نے اسلامی حکومت کے ایک باغی گروہ کی سرپرستی کی۔
(5) خلیفہ ولید بن عبدالملک کے عہد میں ایک بحری جہاز جس میں مسلمان خواتین اور یتیم بچے سوار تھے، جب جہاز سندھ کی مشہور بندرگاہ دیبل کے قریب پہنچا تو سندھ کے قزاقوں نے اسے لوٹ لیا اور خواتین و بچوں کو قید بنا لیا۔ ان قیدیوں میں سے ایک عورت بے اختیار پکار اٹھی کہ "یا حجاج اغثنی" - "اے حجاج میری فریاد کو پہنچو" جب اس کی خبر عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو ہوئی تو وہ پکار اٹھا "لبیک لبیک" ، "ہاں میں آیا"۔اس واقعے کے بعد عراق کے والی حجاج بن یوسف نے سندھ کے راجا داہر کو خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ ہماری جو مسلم خواتین بہنیں اوران کے یتیم بچے قید کئے گئے ہیں اور ان کو لوٹا گیا ہے انہیں باعزت طریقے سے واپس کیا جائے اور مال و اسباب کا جو کچھ نقصان ہوا ہے اس کا تاوان ادا کیا جائے۔راجہ داہر نے اس خط کا جواب نہایت تکبر، بے پروائی اور فریب سے دیا اور لکھا کہ"یہ کام ڈاکوؤں کا ہے، جن پر ہمارا بس نہیں چلتا"۔حجاج نے مظلوم عورتوں اور یتیم بچوں کی باعزت واپسی کے سلسلے میں تمام سفارتی امور میں ناکامی اور سندھ کے راجا داہر کی مملکت اسلامیہ کے ساتھ سابقہ عداوتوں کی بنیاد پر سندھ پر بھرپور حملے کا فیصلہ کرلیا۔ 
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت نمبر 75 میں فرمایا:ترجمہ: آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکردبا لئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر۔
حجاج نے اس مظلوم اور بے بس عورت کی فریاد پر لبیک کہا اور اپنے چچازاد بھائی عماد الدین محمد بن قاسم کو محاذ سندھ کی سپہ سالاری کے لئے منتخب کیا۔ محمد بن قاسم بحری بیڑے کے ساتھ سندھ کی بندرگاہ اور تجارتی شہر (موجودہ ٹھٹہ اور کراچی کے درمیان کسی مقام پر واقع تھا) کو فتح کیا۔ اس کے بعد نیرن کوٹ (موجودہ حیدرآباد)۔ سیوستان (موجودہ سیہون)، برہمن آباد (موجودہ شہدادپور) کے قریب راجہ داہر کے بھائی کو شکست دی اور آخر میں روہڑی کے قریب اروڑ کے مقام پر راجا داہر سے آخری معرکہ برپا ہوا، جس میں راجہ داہر مارا گیا، اسلامی لشکر کو اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب کی ، سندھ پر صدیوں سے چھائے کفر و شرک کے کالے بادل چھٹ گئے اور اسلام کا ابر رحمت برسنا شروع ہوگیا۔ برہمن حکومت کا خاتمہ ہوا۔ سندھ باب الاسلام بنا اور یہاں سے اسلام برصغیر کے مختلف ممالک میں پہنچا۔
سندھ کے عظیم صوفی شاعر، شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں ایک جگہ کہا ہے، شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
"ہر طرف زمین پر برائی ہی برائی تھی، آنحضور  تشریف لائے اور پوری زمین کو روشنی اور رحمت سے بھردیا، ان کے آنے سے عورتوں کونئی زندگی ملی۔"
اروڑ کی فتح کے بعد، غازی محمد بن قاسم نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور سندھ کے مشرقی کنارے اچ اور ملتان تک کو فتح کیا۔اسلام کی آمد سے پہلے یہاں برہمن راج تھا۔چارسو ظلم و ستم پھیلا ہوا تھا۔ صرف برہمنوں کو تمام حقوق حاصل تھے۔ غازی محمد بن قاسم نے سندھ کو امن دیا، خوشحالی دی، لوگوں کی جان و مال کو محفوظ بنایا، تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذاہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دی۔ مفتوحہ علاقوںمیں فتح کے بعد وہاں کی تمام عبادت گاہیں مندر وغیرہ قائم رکھے۔لوگوں میں رواداری کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ دورانِ جنگ کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔بت خانوں کے پنڈتوں کو اخراجات پورا کرنے کے لئے، جاگیریں عنایت کیں۔اسی لئے جب محمد بن قاسم واپس جارہے تھے تو صدیوں سے محروم و مجبور اور ظلم و جبر میں پسے ہوئے سندھ کے عوام رورو کر فریادیں کررہے تھے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں،اس لئے محمد بن قاسم کو جارح ،غاصب یا لٹیرا کہنے والوں کو ایک بار پھر تاریخ کوپڑھنا چاہئے۔ 
محمد بن قاسم نے بڑے بڑے شہروں دیبل، نیرن کوٹ، سیوستان، برہمن آباد، اروڑ، ملتان، دیپالپور اور قنوچ وغیرہ میں بڑی بڑی مساجد تعمیر کروائیں۔ سندھ میں اسلام کی آمد کے بعد یہ سر زمین اسلامی علوم کی اشاعت کا مرکز بن گئی۔سینکڑوں محدثین اور علماء پیدا ہوئے جنہوں نے عالمِ عرب میں جاکر قرآن و حدیث کی اشاعت میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ 

مزیدخبریں