محفوظ شہید کینال: چولستان کے لیے لائف لائن

Mar 11, 2025

اسد اللہ غالب

پاکستان میں سیاست برائے سیاست اور مخالفت برائے مخالفت کا چلن بہت عام ہے۔ لوگ حقیقت کو جانے بغیر سیاست برائے سیاست اور مخالفت برائے مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ اس قبل ہم کالا باغ جیسے پانی اور بجلی کے شاندار منصوبے کو بھی بے جا طور پر سیاست کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔ اور اس کا خمیازہ ہم ملک بھر میں توانائی کے مسلسل بحران کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ہم نے سالانہ بنیادوں پر اربوں روپے کا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کردیا لیکن اس پانی کو کالا باغ ڈیم کی صورت میں استعمال میں نہیں لایا گیا۔ اب چولستان کینال کا مسئلہ سندھ اور پنجاب کے درمیان ایک تنازع کی شکل اختیار کر سکتا ہے، چولستان کینال کے مسئلے کے حل پر فوری طور پر توجہ نہ دی تو یہ معاملہ کالا باغ ڈیم کی طرح ایک تنازع کی شکل اختیار کرجائے گا۔ اب ہمارے کچھ لوگ مختلف پلیٹ فارمز پر 6 نہروں اور ان کے سندھ کے پانی کے حصے پر اثرات کے خلاف خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سندھ کو اس کے پانی کے حصے سے محروم کر دیا جائے گا، جس سے ہرے بھرے کھیت بنجر زمین میں تبدیل ہو جائیں گے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس حوالے سے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں۔
محفوظ شہید کینال، جسے ’’چولستان کینال‘‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے وسیع نہری نظام کا حصہ ہے، جو دریائے چناب اور جہلم سے پانی کی تقسیم کو منظم کرتی ہے۔ یہ کسی بھی صورت دریائے سندھ سے پانی نہیں لیتی، لہٰذا سندھ کے حصے کے پانی کے انحراف کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ محفوظ شہید کینال کے لیے پانی کی دستیابی کا این او سی مشترکہ مفادات کونسل کے تحت قائم آئینی ادارے ’’انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) ارسا نے جاری کیا تھا، جس میں تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہیں۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے جنوری 2024ء￿  اجلاس میں جب اس منصوبے کو پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ دینے کا معاملہ آیا تو حکومت سندھ کے نمائندے نے یہ قانونی سوال اٹھایا کہ اتھارٹی اس نوعیت کا سر ٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتی مگر اتھارٹی کے اجلاس میں 1 کے مقابلے میں 4 ووٹوں سے یہ سر ٹیفکیٹ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس طرح ارسا اور دیگر متعلقہ فریقین کے درمیان مکمل وضاحت موجود ہے کہ اس منصوبے کے لیے تمام ضروریات پوری کی گئی ہیں اور پنجاب اپنے حصے کے پانی کو محفوظ شہید کینال کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ’’چار ماہ تک سیلابی فالتو پانی سے‘‘ اور ’’دو ماہ تک پنجاب کے مختص شدہ حصے سے‘‘پانی حاصل کیا جائے گا، جو کہ 1991ء￿  کے پانی کی تقسیم معاہدے کے عین مطابق ہے۔ گزشتہ جولائی میں صدر آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں چولستان نہر پروجیکٹ کی منظوری دی گئی تھی۔ گزشتہ ماہ سینٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کے ہونے والے اجلاس میں حکومت سندھ کے نمائندے نے چولستان کینال منصوبے پر اعتراض کیا تھا مگر سی ڈی ڈبلیو پی نے حکومت سندھ کے اعتراض کو مسترد کردیا تھا اور اس منصوبے کو Executive Committee of the National Economic Councilکو ریفر کیا گیا تھا۔
 محفوظ شہید کینال 2018ء  کی قومی آبی پالیسی اور ماحولیاتی پالیسی کے مطابق ہے اور اس میں ہائی ایفیشنسی ایریگیشن سسٹم(ایچ ای آئی ایس)ا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ پانی کی کھپت کو کم کیا جاسکے۔ اس نہر اور اس کے تقسیم کار نیٹ ورک کو ’’کنکریٹ لائننگ‘‘ کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جاسکے اور پانی کا بہترین استعمال ممکن بنایا جاسکے۔ جہاں تک دریائے سندھ کے پانی کی دستیابی کا تعلق ہے، 2027ء  میں مہمند ڈیم اور 2029ء میں دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل کے بعد 7.08 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) اضافی پانی دستیاب ہوگا۔ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تکمیل سے پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، جس سے سیلابی پانی اور اضافی پانی کا بہتر انتظام ممکن ہوسکے گا۔ یہ ذخیرہ شدہ پانی 1991ء کے معاہدے کے مطابق تمام صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس سے مجموعی طور پر پانی کی دستیابی اور تقسیم میں بہتری آئے گی۔
آبپاشی کے علاوہ، محفوظ شہید کینال پاکستان کے دفاع کو مزید مستحکم کرے گی۔ محفوظ شہید کینال کے لیے پانی کی دستیابی اور فنڈنگ کی تمام ضروری منظوری حاصل کی جا چکی ہے۔ یہ متعلقہ حکام کی جانب سے تسلیم شدہ ہے اور پنجاب حکومت کے ’’آئندہ ترقیاتی منصوبے‘‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ نہر 12 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے میں مدد دے گی، جس سے خوراک کی پیداوار میں اضافہ، روزگار کے مواقع میں بہتری، حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) کا فروغ اور صحرائی زمینوں کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔
محفوظ شہید کینال جیسے منصوبے زراعت، آبپاشی اور مقامی معیشت کے لیے فائدہ بہت مند ہیں۔ ایسے عوام دوست منصوبوں کو سیاسی تنقید کی نذر کر دینا مناسب نہیں۔ چولستان کینال دراصل دریائے ستلج کے سلیمانکی بیراج سے نکالی جائے گی، جو فورٹ عباس پر اختتام پذیر ہوگی۔ یہ نہر 176 کلومیٹر طویل ہوگی۔ اس نہر سے 120 کلومیٹر طویل ماروٹ کینال کو پانی مہیا کیا جائے گا۔ یہ پانی East Ward مشرق کی طرف منتقل ہوگا۔ اس نہر سے چولستان کی چار لاکھ باون ہزار (452000) ایکڑ زمین جو صحرائی علاقہ میں ہے، سیراب ہوگی۔ اس علاقے میں پانی فراہم کرنے کے لیے 524 کلومیٹر ڈسٹری بیوٹرز اور چھوٹی چھوٹی نہریں تعمیر ہوں گی۔ اس منصوبے پر 21 بلین روپے کی لاگت آئے گی۔ یہ منصوبہ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ 3 اپ اسٹریم دریائوں کو منسلک کر کے نہروں رسول قادرآباد، قادر آباد بلوکی اور بلوکی سلیمانکی کو بھی پانی ملے گا۔

مزیدخبریں