’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘

Mar 11, 2025

محمد دلاور چودھری

یادش بخیر: گزشتہ دنوں مولانا محمد حسین آزاد کے انشائیے ’’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘ کی طرز کی ایک تحریر (جس کا عنوان: ’’پاکستانی انسان کسی نظام سے خوش نہیں رہتا‘‘ ہونا چاہئے تھا) نظر کی چلمن اٹھا کر دل و دماغ پر دستک دیتی ملی تو یکایک ذہن کی سکرین پر فیو دوردستوفیسکی کا ناول ’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ (The insulted and Humiliated)   اْبھر آیا۔ کافی دیر ناول کے مرکزی نکتے کہ ’’سچے‘ کھرے لوگ بْرے اور بدکردار افراد سے نمٹنے کے لئے ناکافی ثابت ہو رہے ہیں‘‘ اور اس کے مادہ پرست کردار ’’پرنس والکوسکی‘‘ کے بارے میں سوچتا رہا۔
تحریر میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ ’’ہم لوگ جمہوریت، آمریت یا ہائبرڈ کسی بھی نظام سے مطمئن کیوں نہیں ہوتے‘‘ اور میری سوچ کا اصل محور یہ تھا کہ ہمارے ہاں کوئی نظام سرے سے ہے بھی یا نہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک طرف گنے چْنے مراعات یافتہ افراد ہیں تو دوسری طرف ذلتوں کے مارے لوگ جو ہر روز کسی نہ کسی طرح صبح سے شام کر لینے کو ہی زندگی سمجھ لیتے ہیں۔ وہ زندہ توہیں لیکن انکی ’’درداں دی ماری دلڑی ہر وقت علیل رہتی ہے‘‘ اور وہ بڑی بے تابی سے کسی ایسے نظام کے منتظر ہیں جہاں ان کے بچوں کو بھی امن اور انصاف میسر آسکے۔ اشرافیہ سے کم ہی سہی لیکن آئے تو، چاہے اتنا ہی آجائے جتنے بڑے لوگ مراعات کے مے خانے کے پیمانوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔
جمہوری تماشے ہوں؟ آمری تمکنت یا ہائبرڈ دلاسے، جب اکثریت کو انتہائی بنیادی نوعیت کی سہولتوں کی رمق بھی میسر نہ ہو تو پھر اسے نظام نہیں ’’انسانی چڑیا گھر‘‘ کہا جا سکتا ہے۔
لگتا ہے اپنے ایک ہاتھ میں ڈگڈگی اور کندھوں پر چھوٹے چھوٹے سینما یا کہانی گھر اٹھائے لوگوں کے خوابوں کے عوض انہیں جمہوری، آمری اور ہائبرڈ ’’کھیل‘‘ دکھانے والے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہیں۔ ان کے کھیل کے شروع میں تو یہی لگتا ہے کہ ان کی ساری صبحیں تمام شامیں دنیا بھر کی خوشیاں سمیٹ کر عام لوگوں کی قسمت کے بند کواڑوں پر دستک دینے آئی ہیں لیکن ہر کھیل کا اختتام خلق خدا کے لئے اس پیغام پر ہی ہوتا ہے کہ ’’اپنے ویرانے کا کوئی اچھا سا نام رکھ کر‘‘ خوش رہنے کی عادت ڈالیں۔
 ’’حقیقی سکہ رائج الوقت‘‘ نظام وہ ہوا کرتا ہے جس میں لوگوں کو سانس لینے کے لئے ہوائیں اور تھوڑا بہت دل پشوری کرنے کے لئے رنگ و بْوخریدنے نہ پڑیں ریاستوں اور تین ایکٹ کے سٹیج ڈراموں میں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ کبھی جمہوری تو کبھی آمری اور ہائبرڈ تماشے دکھا دیئے، کھیل ختم، سارا پیسہ ہضم اور دیکھنے والے خالی جیبیں لیکر نہ صرف خوش خوش گھروں کو لوٹ جائیں بلکہ باقی ماندہ عمر بھی ہنستے کھیلتے گزار دیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ محرومیوں کے درد کا نظام وہ ’’بے درد رنگ‘‘ ہے جو اس پر چڑھائے گئے عارضی رنگوں کو بے رنگ کر کے ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے۔
جہاں عام آدمی کو محض ایف آئی آر درج کرانے کے لئے گھر کے برتن تک بیچنے پڑ جائیں۔ تھانوں میں بیٹھے فرعونوں کے آگے سجدہ ریز ہونا پڑے۔ ہسپتالوں میں اکثر ڈاکٹروں کے کمروں کے دروازوں کی دہلیز پار کرنے کے لئے کسی نامی گرامی کا رقعہ حاصل کرنا پڑے، اپنے بچوں کو ایک ایسی تعلیم جس کا کوئی رْخ ہے نہ معیار بلکہ طویل بے روزگاری مقدر ہے، دلانے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑ جائیں۔ انصاف کے زیادہ تر مراکزنیلام گھروں میں بدل گئے ہوں جہاں صبح شام بولیاں لگتی ہوں۔ میرٹ وہ ’’ڈبل روٹی‘‘ بن چکا ہو جسے خواص روزانہ ناشتے کی میز پر عوام کے جسموں سے نچوڑی آرزوؤں کی چائے کے ساتھ کھا جاتے ہوں۔ ٹیکسوں اور یوٹیلٹی بلز کی صورت تمام بلاؤں کا ’’پنڈورا بکس‘‘ عوام پر اْنڈیل دیا گیا ہو۔ جہاں عوام ایسے ’’کمبل‘‘ بن چکے ہوں کہ سر پر اوڑھیں تو پاؤں ننگے ہو جائیں وہاں ’’کسی ایک تماشے پر تو مطمئن ہو جاؤ‘‘ کے مشورے کیا معنی رکھتے ہیں؟
اسی دوران ایک اور روسی ادیب نکولائی گو گول میرے پاس آ گیا اور کہنے لگا ’’میری جان آج کا غم نہ کر دنیا ایسی ہی ہے۔ انسان مجموعی طور پر غیر مطمئن رہنے والی مخلوق ہے اور یہ عدم اطمینان انسان کو طلسم ہو شربا کے اْڑن قالین کا مسافر بنا کر کچھ مختلف اور نئے کی تلاش میں دربدر لئے پھرتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’ فرائیڈ نے تو اچھے بھلے بنیادی حقوق سے شرابور معاشروں کے بارے میں بھی کہہ دیا تھا کہ اکثریت قانون توڑنے، تہذیب کو نقصان پہنچانے کی فکر میں مبتلا رہتی ہے اور جب بھی موقع میسر آتا ہے وہ یہ سب کچھ کر بھی گزرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ’’محروم ابن محروم‘‘ معاشروں پر بھی کیا یہ باتیں سجتی ہیں؟ کیا یہاں کوئی قانون کوئی قاعدہ اور کوئی انسانیت سے لبریز تہذیب موجود ہے؟ کیا علم سیاست کی کسی بھی تعریف کے مطابق ہم ایک ریاست ہیں؟ جواب نفی میں ملے تو کم از کم ہمارے دانشوروں کو صابر و شاکر ہو جانے کے مشورے دینے کی بجائے وہ عوامل تلاش کرنے میں مدد کرنی چاہئے جو ایک اچھی ریاست کیلئے ضروری ہوا کرتے ہیں۔ ہر طرف انصاف کیلئے درد ناک صدائیں بلند ہو رہی ہوں تو ایسے میں بھوک کو آداب کے سانچوں میں ڈھل جانے کی تلقین ایسے ہی ہے جیسے کوئی ’’نیرو جلتے ہوئے روم  کے کنارے بیٹھا سکون سے بانسری بجا رہا ہو یا نعمتوں سے لبریز کوئی مراعات یافتہ شخص محروموں کو روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کے مشورے دے رہا ہو۔
ایک واقعہ ابنِ انشاء کا بھی سْن لیں۔ ابن انشاء کے گھر کے پاس سے گزرنے والی سڑک کئی مہینوں سے زیر تعمیر تھی اس دوران کسی مہربان نے ان کے گھر آنے کی خواہش ظاہر کر دی تو ابن انشاء نے مصطفیٰ زیدی کے ایک شعرکی پیروڈی کرکے انہیں حقیقت حال سے آگاہ کر دیا کہ ’’پتھروں پر چل کر آنا پڑے گا۔ گھر کے راستے میں کوئی راستہ نہیں ہے‘‘ اس پر یقیناً ان صاحب نے ابنِ انشاء کے گھر جانے سے توبہ ہی کر لی ہو گی۔ یہ واقعہ اشارے سمجھنے اور سمجھانے والوں کیلئے کافی ہے۔
 خواہشوں کے ’’پتھروں‘‘ سے سر پھوڑتے، بے ڈھنگی چالیں چلنے اور بے لگام آرزوؤں کا دامن بھرتے آج ہم بھی ایسے دوراہے پر آ چکے ہیں کہ جس کی راہیں، ہی غموں اور دکھ کے کانٹوں سے اٹی پڑی ہیں۔
یہ سارے کرشمے، کسی ایک جمہوری، آمروں یا ہائبرڈ دور نے دکھائے ہیں۔ یقیناً ایسا نہیں ہے بلکہ سب نے اپنی بساط سے کچھ بڑھ کر ہی حصہ ڈالا ہے۔ حادثے اچانک تو رونما نہیں ہوا کرتے۔ وقت کو برسوں پرورش کرنا پڑتی ہے۔ 
سلووینیا کے مشہور اشتراکی فلاسفر سلاوج زیزک اپنی کتاب (Too Late to awaken)  میں دنیا کے معاملات پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ہم اپنی ہی لائی تباہی کو روکنے میں اتنے بے بس کیوں ہیں، معاملات کو تحمل اور تدبر سے حل کرنے کی بجائے عدم برداشت اور نفسا نفسیِ کے دور سے کیوں گزر رہے ہیں؟ ان کی تحریر پڑھ کر خیال آیا یہ سوال تو ہمارے پیارے ملک کے حالات پر بھی بنتا ہے کہ ہم کیوں سمجھ نہیں پا رہے کہ بے لگام ہوتی مشکلات پر کیسے لگام ڈالی جائے؟ 
کسی سراب کو حقیقت مان کر اس کی تلقین کرنا شکست کی علامت ہوا کرتا ہے۔ ہمارے دانشوروں کو حالات کے جبر سے تھکنا چاہئے نہ ہار مان لینی چاہئے بلکہ قابل عمل اور حقیقی تجاویز کے ساتھ آگے آنا چاہئے تاکہ گلوں میں رنگ بھر سکیں اور گلشن کا کاروبار بھی چلنے لگے۔
ایسے لوگوں کو جن کیلئے آنکھیں موند کر بھی ’’ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘‘ والے خواب دیکھنا ممکن نہ ہو غیر حقیقی مشورے ’’اور آگ لگا جاتے ہیں‘‘ 
اچھی تجاویز کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔
ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ساری قوم کے اعتماد کے ساتھ زور لگا کر کشتی کو بھنور سے نکالنا چاہئے، ’’پوری ٹیم‘‘ کا تعاون حاصل کرنے کیلئے توانائیاں صرف کرنی چاہئیں۔ پھر جیت مقدر ہوجایا کرتی ہے۔ لیکن جہاں محرومیاں بال کھولے سو رہی ہوں ایسی دیواریں ریت کی طرح ناپائیدار ہوا کرتی ہیں اس لئے ٹیم کا تعاون حاصل کرنے کیلئے اسے محرومیوں سے بچانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔
وسائل کی انتہائی غیر مساوی تقسیم دیکھ کر ساغر صدیقی یاد آ گئے:
گیت اس عہدِ بے تکلف میں 
بربط وچنگ ونے کو ترسے ہیں 
ساقیا تیرے بادہ خانے میں 
نام ساغر ہے، مے کو ترسے ہیں 
٭…٭…٭

مزیدخبریں