ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
اس وقت دنیا میں لگ بھگ سوا دو سو ممالک ہیں جن میں سے 57 اسلامی ممالک ہیں۔ ان 57 اسلامی ممالک میں 20 اسلامی ممالک انتہائی متمول ،باثر اور طاقتور ہیں۔ سب سے بڑی مثالیں سعودی عرب، قطر، ترکی، برونائی دارالاسلام اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر مغربی ممالک بھی کچھ کرنے سے ڈرتے ہیں اور ان اسلامی ممالک کے تیل کی دولت اوراثر و نفوذ کا انہیں ڈر رہتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدرولادیمرزیلنسکی کی ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح یوکرینی صدرولادیمرزیلنسکی کا تمسخر اڑایا۔ جس انداز میں سفارتی اصولوں کی نفی کی اور جس طریقے سے اپنے ہم منصب کی توہین کی یہ یقینا ایک غیر اخلاقی رویہ تھا ۔ لیکن اسی جگہ دبئی ،قطر، برونائی، ترکی، مصر، سعودی عرب کے فرمانروا ہوتے توڈونلڈ ٹرمپ اُٹھ کر جوش و خروش سے استقبال کرتے اور بہت عزت و احترام سے ملتے۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر ممالک ہیں۔ کسی بھی سربراہ مملکت کی عزت ،قدر و منزلت اور اہمیت اس کے ملک کے سیاسی، معاشی ،معاشرتی، سائنسی ،اخلاقی اور علمی ادبی تناظر سے بنتی ہے۔ اگر امریکی، فرانسیسی ،چینی ،روسی ،جاپانی سربراہ کسی دوسرے ملک میں جائیں تو اُن کا شایان شان استقبال ہوتا ہے۔ وجہ محض اس ملک کی یہ سات عناصر ہیں :سیاسی ،معاشی ،ثقافتی ،علمی، ادبی ،سائنسی ،اخلاقی اکائیاں ہیں۔ا نھی ساتوں عناصر سے کوئی ملک ترقی طاقت اور عزت حاصل کرتا ہے ۔ ایسے ممالک جو اپنے قدموں پر کھڑے ہوں جن کے ہاں سیاسی نظام مضبوط ہو اور معاشی قدریں بلند ہوں۔ جنہوں نے علمی، ادبی، سائنسی، ثقافتی اور اخلاقی طور پر ترقی کی ہو۔ وہاں کے سربرآہوں کی دنیا بھر میں بے پناہ عزت کی جاتی ہے۔ خوش قسمتی سے امریکہ دنیا کا سپر پاور ہے۔ جس نے روس کی عظمتوں کو بھی دھندلا دیا ہے۔ لیکن روس اپنی عظیم تاریخ ،اپنے طاقتور سیاسی نظام، اپنی بہترین مثالی ثقافت اور سب سے زیادہ علمی ،ادبی، سائنسی توانائیوں، عظمت و حشمت اور بیش قیمت ورثے کی وجہ سے آج بھی دنیا کا ایک طاقتور ترین ملک ہے۔ فرانس کی طرح وہ نعمتوں سے مالامال اور اپنی گراںقد ر تاریخ کی وجہ سے بے مثال اور انمول ملک ہے۔ اس لیے اگر یوکرین کے صدرولادیمرزیلنسکی کی جگہ روس کے ہر دلعزیز طاقتور صدر ولادیمرپیوٹن ہوتے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اُن کے آگے کورنش بجا لاتے۔ اسی صدر کا شایان شان استقبال ہوتا اور دنیا بھر کا میڈیا اس ملاقات میں موجود ہوتا۔ اس لیے اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ جب کوئی سربراہ کسی ملک کا مہمان ہوتا ہے تو اسے اس کے ملکی حالات کے مطابق پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ کسی سربراہ کا بذات خود تونگر،متمول یا ارب پتی ہونا معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کا تھری پیس سوٹ، بیش قیمت ٹائی یا ہیٹ، چمچماتے جوتوں اور قیمتی پرفیوم ،رُو لس رائس یا لیموزین میں جانا اہمیت رکھتا ۔ یہ اضافی نمائشی پُھندنے ہمیشہ کمزور لوگوں کے ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ نریندر مودی جب بھی مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو یہ آدمی فخر سے اپنا قومی لباس زیب تن کرتے ہیں ۔یعنی لٹھے یا بوُسکی کا پا جامہ کرتا اور واسکٹ ۔۔۔اسی سادہ لباس میں صدر کو عزت اور پروٹوکول سے نوازا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کے ملک کے سیاسی، اقتصادی اور عوامی ،اخلاقی حالات آپ کی عزت بڑھاتے ہیں۔ آپ کی کارکردگی، ذہانت، برجستگی ،متانت اور اہمیت آپ کی شخصیت کو چار چاند لگاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سفارتی آداب، تمیز، تہذیب اور اخلاقیات کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ جب کوئی آپ کے گھر یا ملک میں مہمان بن کر آتا ہے تو صدیوں سے یہ روایات چلی آر ہی ہیں کہ میزبان اپنے مہمان کو عزت اور پروٹوکول دیتا ہے۔ مہمان پر پوری توجہ مرکوز رکھتا ہے لیکن ڈونلڈٹرمپ نے ان جاہل عورتوں کی طرح جو اپنے بچوں کی شادی پر خود بن سنور کر سٹیج پر بیٹھ جاتی ہیں اور مہمانوں کو سٹیج پر پھٹکنے نہیں دیتیں۔ اسی طرح کی بدتہذیبی ،بد اخلاقی اور بدسلوکی کا مظاہرہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولادیمرزیلنسکی کے ساتھ کیا جسے دنیا بھر میں ناپسندیدگی سے دیکھا گیا ۔ اس میں بے عزتی یوکرینی صدر ولادیمرزیلنسکی کی بجائے دنیا کیے طاقتورترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہوئی ۔ ہر مذہب ہر نسل ہر قوم میںاخلاقیات اور مہمان نوازی کا پہلا درجہ ہے۔ افسوس کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں بھی کئی چھچھو ری حرکتیں کیں، جو ایک صدر کے شایان نہیں تھی۔ سات سال کی عمر میں ہی ایک بچے کو سمجھ آجاتی ہے کہ اس نے اپنے رشتہ داروں سے کیسے ملنا ہے ۔ سات سال کے بچے کی تربیت میں اس کے خاندان کا ڈی این اے ،ماں کی تربیت،ماحول اور اجتماعی شعور کام کرتا ہے۔ تربیت ہی انسان کی شخصیت بناتی یا بگاڑتی ہے۔ بدقسمتی سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں ایک بھی اخلاقی یا مثالی رویہ پیش نہیں کیا اور اب دوسرے دور میں حلف لینے سے پہلے ہی اپنے ناروا رویوں اور بد تہذیبی سے امریکہ کے لیے مشکلات اور ناپسندیدگی پیدا کر دی ہے۔ سب سے پہلے سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے متشددانہ ،متکبرانہ اور تحقیر آمیز بیانات ۔ جو بائیڈن کو اکثریت نے ناپسند کیا لیکن ایک اہم اور بڑے منصب پر بیٹھ کر کسی کا مذاق اُڑانا ،تحقیر کرنا بلکہ ذلیل کرنا نہایت معیوب اور قابل مواخذہ بات ہے ۔ جو جا چکا یا مر چکا۔۔۔۔ اُسے لعنت ملامت کرنا ایک شرم ناک فعل ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کے لیے جو بندشیں، سختیاں ناگوار باتیں کی ہیں وہ بھی درست نہیں تھیں۔ اگر امریکہ ُسپر پاور ہے تو ونگر ہے ۔ ایٹم اور ڈالروں کا خزانہ ہے تو اگر لوگ مجبور ہو کر اپنا وطن اپنے لوگ اپنا ماحول اور اپنی مٹی چھوڑ کر سمندر پار امریکہ جاتے ہیں تو یہ ان کی خوشی نہیں مجبوری ہے یا تو امریکہ انہیں پہلے ہی ویزے جاری نہ کرتا پھر اگر ویزے رہائشی دے دئیے تو کیا یہ ہزاروں لاکھوں لوگ مفت میں امریکہ رہ رہے ہیں یا مفت کے برگر ڈھکوس رہے ہیں ۔ یہ تارکین وطن مصیبت اٹھا کر بے عز تی سہہ کر اور محنت مشقت کر کے امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ امریکہ کی رات دن خدمت کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی خدمت محنت وہ اپنے ملک میں ایمانداری سے نہیں کرتے۔ امریکی صدر نے سرحدیں کھینچنے پر بھی زور دیا ۔ امریکہ اس وقت کئی مسائل میں گھرِا ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو ہر ایک کا باپ بننے کا شوق پڑا ہے۔ مثلا ًاپنی حلف برداری سے پہلے اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے متشددانہ بیانات دے کر ڈونلڈٹرمپ نے کچھ ا سلامی اور مغربی ممالک کو اپنے خلاف کر لیا ہے ۔ اسرائیل کی اندھادھند سپورٹ، اسرائیلی حملوں کی تائید اور فلسطینیوں کی ہر بات میں مذمت کر کے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا تعصب ،نسلی زہر اور چھوٹے پن کا اظہار کر دیا ۔ اسرائیل نے بہیمانہ طریقے سے فلسطین کو تہس نہس کر ڈالا۔ لاکھوں فلسطینی شہید ہو گئے جبکہ فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلیوں کے مرنے کی تعداد بمشکل چار ہزار ہے۔ اسرائیل قائم و دائم ہے لیکن فلسطین کھنڈر بن گیا ہے۔ ایسے موقع پر ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر قبضے اور تسلط کی باتیں کر کے اپنے لیے نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر لی ہیں۔ غزہ پر ٹرمپ کے بیان نے آگ لگا دی چنانچہ او آئی سی نے کثرت رائے سے ٹر مپ منصوبہ مسترد کر دیا ۔ اس کے بعد فورا ًٹرمپ نے ایران کو چٹھی لکھ ماری اور ایران کو حکم دیا کہ وہ جوہری معاہدے کے لیے امریکہ سے مذاکرات کرے۔ ایران نے صاف انکار کر دیا ۔ حیرت ہے کہ اپنے ملک کے حالات سدھارنے کی بجائے روس، یوکرین ،اسرائیل، فلسطین ، ایران، پاکستان ،انڈیا کے اندرونی معاملات میں گُھسنا اور واہیات بیان دینا ایک امریکی صدر کا منصب نہیں۔ ایک طرف افغانستان کو لعن طعن اور دوسری طرف ڈالروں کی برسات ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کسی سے راضی بھی ہیں کہ نہیں۔ ٹرمپ سرکار کو ایک وزٹ سائیکی ٹرسٹ کا بھی رکھنا چاہیے کہ وہ پرسنلٹی ڈس آرڈر تو نہیں۔
ٹرمپ سرکار!
Mar 11, 2025