زندگی کے نشیب و فراز میں انسان کی زندگی میں بسا اوقات بیشک کچھ ایسے لمحات بھی اتے ہیں جب انسان شدت سے یہ محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ اْسے کوئی ایکسپرٹ ایڈوائس چاہیئے چنانچہ دوسرے انسانوں کی طرح جب کبھی راقم ایسی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے خود کو باقی دنیا سے تنہا کر لیتا ہے اور پھر تنہائی کے ان لمحات میں خود سے باتیں کرنی شروع کر دیتا ہے جسے فلسفہ کی دنیا میں ہمکلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور روحانیت کی دنیا میں صوفی لوگ اسے اپنے سفر کی پہلی سیڑھی سمجھتے ہیں۔ آج جب کالم لکھنے بیٹھا تو موضوع کی مناسبت سے فکری اساس نے راقم سے کچھ اسطرح کے سوالات کیئے کہ اسکے جواب میں دل و دماغ دونوں ہی بے بس پائے چنانچہ ایسے میں اسکے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا کہ کہ اپنے ہمزاد سے بات کی جائے۔ راقم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان میں ہر آنے والی حکومت تواتر سے دو باتوں کا بڑی شدت سے تذکرہ کرتی ہے سب سے پہلے حسب معمول وہ سیاپا جسے کچھ احباب رنڈی رونا سے تعبیر کرتے ہیں کہ "پچھلی حکومت لْٹ کے کھا گئی اور خزانہ خالی اے" دوئم انشاء اللہ اب ہم ایسی اصلاحات لائینگے کہ ہر طرف انقلاب آ جائیگا۔ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایوب دور آیا تو اسے صنعتی انقلاب سے تعبیر کیا گیا۔ بھٹو دور آیا تو اسے عوامی انقلاب کا نام دیا گیا۔ ضیا دور آیا تو یہ انقلاب اسلامی رنگ میں ڈھل گیا۔ بے نظیر آئیں تو اس نے جمہوری انقلاب کا لبادہ اوڑھ لیا۔ نواز شریف آیا تو اسکی کتابوں میں اسے بنیادی انقلاب لکھا اور پڑھا جانے لگا۔ قاف لیگ اور مشرف کے اجتماعی دور میں کبھی اس انقلاب نے سبز انقلاب کے روپ میں اور کبھی جدت پسندی کے روپ میں رنگ بکھیرے اور رہی سہی کسر اس دور میں عمران خان کے نعرے سے مکمل ہوتی نظر آ رہی ہے جس نے انقلاب کے نام پر ایک ایسا ٹھپہ جڑ دیا جسے اسکی کتابوں میں سونامی اور اسکے نتیجے میں وضع ہوتے شاہکار کو نئے پاکستان کا نام دیا جا رہا ہے۔ آج جب موضوع کی مناسبت سے کچھ سوالات کے جواب کیلیئے راقم نے اپنے ہمزاد سے رابطہ کیا تو میرا ہمزاد مجھ سے پوچھنے لگا کہ خْدا کو حاظر ناظر جان کر صدق دل سے قسم کھا کر بتاؤ کہ ان تمام ادوار کا کوئی ایک انقلاب اپنے نام کے مطابق کوئی نتائج دے سکا سوائے ایک ایوب خان کے صنعتی انقلاب کے وہ بھی جو مشرقی پاکستان کے لوگوں میں موجود احساس محرومی کو ایک پودے سے تناور درخت بنا گیا۔ قارئین مجھے تو میرے ہمزاد کا یہ سوال بڑی گہرائیوں میں لے گیا ہے۔ بیشتر اسکے کہ میں اس سوال کا کوئی جواب دوں اور اپنے اوپر کسی کی حمایت کا ٹھپہ لگوا لوں اسکا جواب میں اپ پر چھوڑتا ہوں البتہ اس سباق میں اسکا جواب ڈھونڈنے کیلیئے راقم یہ سمجھتا ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ لغوی اور معنوی اعتبار سے انقلاب کی اصل تعریف ہے کیا اور عملی شکل میں اسے کس نظر سے دیکھا جاتا ہے جسکے لیئے شائد بیسیوں کتابیں اور مکمل ڈبیٹ بھی کوئی حتمی نتیجہ نہ دے سکے۔ گْو کہ پولیٹیکل سائنس میں میرا علم بہت ہی محدود ہے لیکن پھر بھی ایک ادنیٰ طالبعلم ہونے کی حیثیت سے مختصراً اتنا جانتا ہوں کہ معنوی اور لغوی اعتبار سے انقلاب حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی اْس بنیادی تبدیلی کو کہتے ہیں جو نسبتاً کم وقت میں حاصل کی جاتی ہے جبکہ بعض محقیقن اسے ایک نظام سے دوسرے نظام میں منتقلی سے بھی تعبیر کرتے ہیں لیکن بظاہر اور عملی طور پر دیکھا گیا ہے کہ جہاں کہیں بھی پْرتشدد طریقے سے کسی نظام کو بدلنے کی کوشش کی گئی ہے اْسے انقلابی کوشش یا انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں جتنے ممالک جنکی معیشتوں یا تہذیبوں میں جو بہتری آئی ہے اور جسکی بدولت وہ اجکے دور میں مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار ہوتے ہیں وہاں یہ ظہور کسی انقلاب کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا یا اسکے پیچھے کوئی اور فلسفہ پوشیدہ ہے۔ اس سباق میں مستقبل قریب میں انقلابی کوششوں کی طرف اگر ایک نظر ڈالیں تو سب سے پہلے ہمیں " عرب سپرنگ" کے نام سے شروع ہونے والی ایک تحریک نظر آتی ہے لیکن جب اسکے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں تو پھر ان تمام ممالک جہاں جہاں اس نے زور پکڑا وہاں تباہی اور شکست و ریخت کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں اتا اسکے مقابل اگر امریکہ یورپ اور دیگر خوشحال ممالک کی طرف دیکھیں تو بلاشبہ بہت سے دوست اس سلسلے میں انقلاب فرانس اور شکاگو تحریک کے علاوہ اور بہت سی تحریکوں کے حوالے دینگے لیکن ایمانداری سے دیکھا جائے تو ان ممالک میں خوشحالی کا سفر جس صفت کا مرہون منت ہے وہ ہے سوشل اکاؤنٹیبلٹی سماجی احتساب۔ وہاں پر سماج میں لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ فلاں آدمی مختصر لباس میں کیوں گھوم رہا ہے البتہ وہ اس چیز کا نوٹس ضرور لیتے ہیں کہ فلاں شخص کا اپنے ذرائع اور اپنے وسائل سے زیادہ تصرف کیوں اور کس طرح ہے اور وہ اسے سماجی بیماری اور برائی سمجھتے ہوئے اس پر اپنا شدید ردِعمل دکھاتے ہیں۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024