ـ"کرفیو کی پابندیاں صرف مسلمانوںکے لئے تھیں ۔ نہ داد نہ فریاد ، مسجدیں ویران ہو گئیں ، کانگریسی مولویوں نے چپ سادھ لی۔ ان کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ یہ سب کیا دھرا جناح کا ہے ۔گاندھی کی پراتھناروزانہ ریڈیو پر نشر کی جانے لگی کہ؛ " مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے ہتھیار مجھے دے جائیں ۔"اس کا آہنسا صرف مسلمانوں کے لئے تھا ۔ شائد وہ دنیا کو یہ جتانا چاہتا تھا کہ سب فتنہ و فساد کی جڑ صرف مسلمان ہیں ۔اگست ۱۹۴۷ کے آخر اور ستمبر کے شروع میں حریفوںکی سرگرمیاں بڑھ گئیں ۔ انگریزوں کا دست ِ شفقت انہی کے سر پر تھا ۔مسلمانوں کیلئے زمین تنگ اور آسمان دور تھا ۔۔۔گھروں سے باہر نہ نکلتے تو جلا دئیے جاتے اور اگر باہر نکلتے تو تہ تیغ کر دئیے جاتے۔۔ـ" "جب تقریبا آدھا شہر مسلمانوں سے خالی ہو گیا تو پرانے قلعے میں کیمپ کھول دیا گیا تاکہ اجڑے ہو ئے مسلمان اس میں جا کر پناہ لے سکیں اور وہاں سے پاکستان جا سکیں ۔۔ "
آج جس جامع مسجد دہلی سے ایک دفعہ پھر مسلمانوں کی آہ و بکا کی آوازیں بلند ہو ئی ہیں ، اسی جامع مسجد میںپاکستان بننے کے بعد کئی ہزار خانماں برباد پناہ کی خاطر اکھٹے ہو گئے تھے ۔۔دہلوی صاحب وہاں گاندھی کی آمد کا حال لکھتے ہیں : "مسلمان ان کے درشن کرنے اس قدر بے تاب ہو کر لپکے جیسے مہاتما نہیں آسمان سے پر ماتما اتر آیا ہو, مہاتما گاندھی زندہ باد کے نعروں سے مسجد گونج اٹھی ۔اللہ اللہ کیا وقت تھا گاندھی جی کو دیکھ کر لوگ خانہ خدا میں خدا کو بھول گئے ۔۔۔وہ خاموش آیا اور تسلی کا کوئی لفظ کہے بغیر خاموش چلا گیا اور اگلے دن مسجد خالی کرنے کا سرکاری حکم نامہ آگیا ۔۔۔" دلی کی بپتا۔ اس بدقست شہر کی نہ تو ایک زمانے کی بپتا ہے اور نہ مسلمانوں کی صرف ایک ہی دفعہ لٹنے کی داستان ہے ۔۔ اس بپتا کو ہم کسی بھی منظر نامے میں آگے پیچھے کر سکتے ہیں ۔ چاہیں تو غدر والے دلی پر لے جائیں چاہیں تو آج کے دہلی میں ۔ 1857 میں دلی کی گلیاں انسانوں کی لاشوں سے اٹی پڑی تھیں ۔ تب بھی آسمان نے ایسے ایسے رونگٹے کھڑے کردینے والے انسانی مظالم دیکھے کہ کلیجہ ہی پھٹ جائے۔ایک ہی خاندان کے کسی فرد کو سر ِ عام پھانسی دی جاتی تو باقی خاندان کے افراد قطار میں کھڑے ہو کر اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہو تے تھے بوڑھے لوگوں کو بھی سینے میں گولیاں ماری جارہی تھیں تب بھی غالب نے کہا تھا؛" لال قلعہ،جامع مسجد کا رش ، یمنا پر چہل قدمی اور پھولوں کا سالانہ میلہ دلی میں ان میں سے اب کچھ بھی نہیں بچا ۔۔"
پھر دہلی کی بربادی کا ماتم کرتے کرتے غالب نے انگریزوں کی جیب میں دیا سلائی دیکھ کر ان کے علم وہنر کے گیت گانے شروع کر دئیے تھے ۔ اور تب بھی موقع شناس مولوی مسجدوں میں بیٹھ کر مسلمانوں کو انگریز کی اطاعت کے فرمان جاری کر رہے تھے اور ساتھ میں انہیں انگریز کی شیطانی زبان اور تعلیمات سے بچنے کے احکامات بھی جاری کر رہے تھے، جس کا اثر آج تک ہے کہ انڈیا کا مسلمان اسی کشمکش سے آج تک نکلا نہیں۔ تب بھی ہر دوسرے پر جاسوس ہونے کا شک ہو تا تھا ۔ باہمی اعتبار کی فضا ختم ہو چکی تھی ، بالکل 1947کی طرح بالکل 2020کی طرح ۔۔ مسلمان اپنی وفاداریاں آج کے دن تک ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں ۔ اسبابِ بغاوت ہند یعنی کہ وضاحتوں کی کہانیاں ، ایک دوسرے پر الزام اور ایک دوسرے کی مخبریاں، آج بھی بالکل کل کی طرح ہے ۔ یہاں کچھ نہیں بدلا ۔۔ صرف جلد کا رنگ بدلا ہے ۔۔ گوری چمڑی سے برائون چمڑی تک کا سفر ہے ۔۔باقی دلی کے اجڑنے کی کہانی وہی ہے ۔ دلی کے لوگوں کا نصیب بھی وہی ہے ۔۔ دلی کی انتظامیہ کا رویہ آج بھی وہی ہے جو کل تھا جو پرسوں تھا یعنی دہشت گردوں کی سرپرستی اور مظلوموں کو دہشت گرد قرار دینے والا ۔ایسے میں اپنے نصیب کو رونے کی بجائے نصیب کو بدلنے کی طاقت ہونی چاہیئے ۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ محمد علی جناح جیسے باہمت اور خودار لیڈر روز روز نہیں پیدا ہو تے ۔ مسلم وہنداتحاد کے سب سے بڑے حامی کا ہندوئوں کی احساس ِ برتری کو پہچان کرکہ وہ مسلمانوں کو برابری کا حق دینے کی بجائے اپنے زیر ِ دست رکھنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ اپنی بااصول سیاست کا سب سے بڑا یو ٹرن لینا اور پاکستان کا بن جانا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اور آج کے ہندوستان کے حالات میںیہ گواہی کچھ زیادہ ہی معتبر ہو گئی ہے کہ سر اٹھا کر جینے کی خواہش رکھنا ہی اصل میں جینا ہے ۔ ورنہ آپ کو لوگ ٹھوکروں پر رکھیں گے ، زندہ دفن کریں گے ، سر عام ڈنڈوں یا گولیوں سے ماریں گے اورآپ کی آہ و بکا بھی بے اثر رہ جائے گی ۔ (ختم شد)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024