آج سے دس سال بیشتر قیمتوں کا تعین کرتے ہوئے بھاشا ڈیم کی لاگت کا تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا جاتا تھا جس کا ڈیزائن ارتھ فِل تھا۔اس کے مقابلہ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی لاگت 6 ارب ڈالر کا تخمینہ تھا جو آج 8 ارب ڈالر شمار کیا جاتا ہے۔ بھاشا ڈیم کی لاگت کا اندازہ 14 ارب ڈالر لگایا جانے لگا۔ اب بھاشا ڈیم earth/rock fill کے بجائے کنکریٹ ڈیم ہوگا تو پھر اس کا تخمینہ کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ کوئی بھی حساب کا معمولی ماہر بھی بخوبی لگا سکتا ہے جو ظاہر ہے ارتھ فِل ڈیم کے مقابلہ میں زیادہ ہوگا۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 150 کلومیٹر سے زائد شاہراہ ریشم کو ازسر نو تعمیر کرنا پڑیگا۔ فلک شگاف پہاڑوں میں اس سڑک کی تعمیر پر کتنی لاگت آئیگی جو یقینا 6 ارب ڈالر سے کم نہیں ہو سکتی۔ بھاشا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کو 200 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن بچھا کر تربیلا کے مقام پر لایا جائیگا جس پر کم از کم لاگت 3 ارب ڈالر آئیگی۔ بھاشا ، کالاباغ کے مقابلہ میں نسبتاً کہیں زیادہ فالٹ لائن پر واقع ہے۔ آج کی جدید سائنس نے فالٹ لائن پر تعمیر ہونیوالے پراجیکٹ کو محفوظ بنانے کیلئے راہیں نکال لی ہیں۔ اس پر کتنے اخراجات آئینگے۔ اس پر بھی گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ یہاں نیلم جہلم پراجیکٹ کا ذکر کرنا انتہائی ضروری جو ایک ہزار میگاواٹ سے کم ہے۔ اس کے پراجیکٹ کی لاگت جو 2 ارب ڈالر سے کم ہونی چاہیے تھی، وہ 5 ارب ڈالر سے زیادہ کیوں ہو گئی؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ جیالوجی کے ماہرین کو اس علاقہ کی فالٹ لائن کا علم نہ تھا۔ ان امور کا احاطہ کرنے کے بعد یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ بھاشا ڈیم، سڑک اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کی لاگت 23 ارب ڈالر سے زیادہ ہوگی۔ اسکے مقابلہ میں کالاباغ ڈیم کی لاگت کا تخمینہ 8 ارب ڈالر شمار کیا جا رہا ہے۔ کالاباغ ڈیم لوڈ سنٹر کے درمیان واقع ہے۔ یہاں سے 500 KVA کی ٹرانسمیشن لائن بھی گزر رہی ہے۔ سڑک بھی موجود ہے۔ 1987ء تک کالاباغ ڈیم کے کئی بنیادی کام مکمل ہو چکے تھے۔ مین ڈیم کے علاوہ تمام تعمیرات جن میں رہائشی کالونی، دفاتر، سکول، ڈسپنسری، پاور ہاؤس کی بلڈنگ اور سڑکات تعمیر ہو چکی تھیں۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے مشینری بھی پہنچا دی گئی تھی۔ داؤد خیل سیمنٹ فیکٹری سے سیمنٹ براہ راست پہنچانے کیلئے پائپ بچھانے کا معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔ اس طرح ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے بغیر ہی سیمنٹ تعمیری مقام پر پہنچ جاتا۔
40 سال پہلے مکمل ہونیوالی تمام تعمیرات نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے جو منظر پیش کر رہی ہوں گی۔ اس کا ذمہ دار یقینا کوئی تو ہوگا؟ ان تعمیرات کو دوبارہ بنانے کیلئے کسی ڈیزائن یا پلاننگ کی ضرورت نہیں۔ انکا ٹینڈر فوری طور پر دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح محض چند دن میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہو سکتا ہے۔
اسکے مقابلہ میں بھاشا ڈیم کا ری ڈیزائن تو واپڈا کے مطابق مکمل ہو چکا ہے پھر اس کی ڈرائنگ از سر نو بنانے کیلئے NESPAK کو کیوں ڈرائنگ بجھوائی گئی ہیں جس نے ان کو بنانے کیلئے 6 ماہ کا وقت مانگا ہے۔ ڈرائنگ بننے کے بعد اسکی Estimation کا کام شروع ہوگا جو مکمل ہونے پر ٹینڈر کال کئے جائینگے اور پھر بولی لگانے کے بعد ٹینڈر ایوارڈ کرنے کا مرحلہ آئیگا۔ اس لحاظ سے باسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2020ء میں یہ مرحلہ آئے گا اور پھر کام شروع ہوگا۔ اسکے بعد بھاشا ڈیم سے متعلق تمام پراجیکٹس کی تعمیر میںکم از کم 12 سال لگ جائینگے بشرطیکہ وسائل موجود ہوں۔
جہاں تک بھاشا ڈیم کی افادیت کی بات ہے۔ یہ ڈیم پاکستان کی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ صرف ایک ڈیم نہیں بلکہ اس سے نیچے تعمیر ہونیوالے داسو، پٹن، تھا کوٹI اور تھاکوٹII جو Run of the river پراجیکٹ ہیں، کی کارکردگی دوگنی ہو جائیگی کیونکہ بھاشا ڈیم بننے سے انہیں پورے پلان کیمطابق پانی فراہم ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ اتنے قیمتی ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی ترقی کو چار چاند لگ جائینگے۔ 15/16 ہزار میگاواٹ ہائیڈل بجلی کے ذریعے بجلی کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس ان تمام پراجیکٹس کو مکمل کرنے کیلئے سرمایہ ہے یا ہم انکی تعمیر کیلئے غیروں کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے؟
بھاشا کے مقابلہ میں کالاباغ ڈیم 8 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوگا جو صرف 5 سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔ 23 ارب ڈالر کے مقابلہ میں 8 ارب ڈالر کا پراجیکٹ تعمیر کرنا بہت آسان ہے جو چند سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔ پھر ایک بات بہت اہم ہے کہ بھاشا ڈیم جتنا بھی اہمیت کا حامل ہو۔ اس کیلئے پانی کی فراہمی گلیشیئر کے پانی پر ہے جو کنٹرولڈ ہے۔ بھاشا ڈیم بننے سے اس کا کنٹرول مزید بہتر ہو جائیگا لیکن مستعمل پانی (Useable Water) کی مقدار میں قریباً کوئی اضافہ نہ ہوگا کیونکہ اس عرصہ میں تربیلا ڈیم کی گنجائش سلٹ بھرنے کی وجہ سے بہت کم ہو چکی ہوگی۔ اس طرح بھاشا ڈیم سے محض تربیلا ڈیم کی کمی کو ہی پورا کریگا۔ اسکے مقابلہ میں کالاباغ ڈیم سیلابی پانی کے منبع پر واقع ہے جسے کنٹرول کرنے کیلئے واحد مقام کالاباغ ہے۔ دریائے کابل پر بھارت کی آشیرباد سے افغانستان میں ڈیم بنانے کے منصوبوں پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس کا توڑ صرف کالاباغ ڈیم ہی ہے۔ اس طرح عالمی قوانین کیمطابق ہم اپنے حق پر مہر ثبت کر دینگے۔صرف 5 سال میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر مکمل کرکے پاکستان کی معیشت میں سالانہ 16 بلین ڈالر سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس سے دیگر تمام ڈیم بغیر کسی غیرملکی قرضہ کے بنائے جا سکتے ہیں۔ قوم فیصلہ کرے کہ پاکستان کے مفاد میں کونسا ڈیم تعمیر کیلئے اولیت رکھتا ہے۔ ہماری چیف جسٹس آف پاکستان، مقتدر حکمرانوں اور قوم سے اپیل ہے کہ قومی مفاد اور پاکستان کی ترقی میں فیصلہ کریں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38