خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکرصدیق
علامہ منیر احمد یوسفی
حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق ؓکااِسم گرامی عبد اللہ بن عثمان ابوقحافہ ہے۔ آپ کی وِلادت عام الفیل کے اڑھائی برس بعد یعنی سن ہجری کے آغاز سے پچاس برس چھ ماہ قبل ہوئی۔ آپ حضورنبی کریمسے کم وبیش تین برس چھوٹے تھے۔امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ قریش کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے والدین ‘ آپ ‘ آپ کی اَولاداورآپ کی اَولاد کی اَولاد یعنی چار پُشتیں صحابی ہیں ۔آپ کے ساتویں دادایعنی مُرَّہ‘ حضور نبی کریم کے سلسلہ¿ مبارک سے ملتے ہیں۔ آپ کالقب صدیق آسمانوں سے اُترا ہے۔آپ کے والدِماجدکا نام حضرت عثمانؓ اورکنیت ابوقحافہ تھی۔والدہ ماجدہ کا نام حضرت سلمیٰ ؓاور کنیت اُم الخیر تھی۔
سیّدنا ابوبکر صدیقؓ عشرہ مبشرہؓ میں سے ہیں۔ ایک مرتبہ حضورنبی کریمنے اُن کو دیکھا تو فرمایا: ”تم اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے دوزخ سے آزاد ہو“۔ (ترمذی جلد ۲ص ۲۱۴)اُسی وقت سے آپ کا لقب عتیق پڑگیا۔ظہورِ اسلام سے قبل ہی آپ بہت بڑے رئیس اور صاحب ِوجاہت تھے اور قریش کے رو¿ساءمیں آپ کاشمار ہوتاتھا۔ امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ اَیسے شخص تھے جن کی ذات پر قوم جمع ہوجاتی تھی۔ خون بہاکافیصلہ آپ کے سپر د تھا۔ اور تمام قریش آپ کے فیصلہ کی تصدیق وتائیدکرتے ہوئے خون بہاکابھار برداشت کرتے تھے۔جب حضورنبی کریم نے دعوتِ اِسلام دی تو مَردوں میں سب سے پہلے امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ اِسلام لائے۔ پھر آپ کی دعوت پر عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابہ کرام حضرت عثمان بن عفان‘حضرت زبیر بن عوام‘حضرت عبد الرحمان بن عوف‘حضرت سعدبن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ بھی نبیءکریم پر ایمان لائے ۔ نیزآپ کی دعوت پر آپ کے والدین اور آپ کے دو بیٹے اور پوتے اور ایک نواسہ مشرف بہ اِسلام ہوئے۔
حضور نبی کریم امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ کی بڑی قدرفرماتے اور دوسروں سے بھی اُن کی تعریف سُناکرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جناب رسولِ کریم نے حضرت حسّانؓ سے فرمایا:اے حسّان تو سیّدنا ابوبکر صدیق کے بارے میں کچھ کہاہے۔توحضرت حسّان نے عرض کیا‘جی ہاں: چنانچہ اُنہوںنے یہ شعرپڑھے۔ ترجمہ:
” وہ مبارک غارمیں دومیں دوسرے ہیں۔ دشمنوں نے آپ کاگھیراﺅ کیاجب کہ وہ پہاڑپرچڑھے۔ اور آپ جنابِ رسولِ خدا کے محب ہیں۔ لوگ جانتے ہیں‘ ساری مخلوق سے بہتر ذاتِ ستودہ صفات نے آپ کے برابرکسی شخص کونہیں کیا“۔ (تفہیم البخاری جلد۵ص ۵۳۸)یہ اَشعارسن کرآپ اِس قدر مسکرائے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے پھر فرمایا: تم نے بالکل سچ کہا۔ واقعی ابوبکر صدیقؓ اَیسے ہی ہیں۔
اُمُّ المو¿منین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں ‘جب سرکار رحمة للعالمین کو مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا تو صبح لوگوں میں اِس کا چرچا ہوا ۔مگر کچھ اَیسے بھی تھے جودین سے پھرنے لگے ۔ یہ لوگ اِس خبر کو لے کر امیر المو¿منین حضرت سیّدناابو بکر صدیقؓ کے پاس دوڑے گئے ، حضرت سیّدناابو بکر صدیقؓ نے فرمایا:اگر اُنہوں نے اَیسا فرمایا ہے تو سچ فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ تم اُن کی اِس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ رات میں بیت المقدس پہنچ گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے۔ امیر المو¿منین حضرت سیّدناابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میں تو اُن کی اُس بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں جو اِس سے بھی بعید ہے۔ میں اُن کی اُن آسمان کی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں جو وہ صبح و شام میں دیتے ہیں اِس بنا ءپر آپ کا نام ابو بکر صدیق ؓہو گیا۔
امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ کی فطرت شروع سے ہی سلیم تھی۔ چنانچہ آپ کو قبولِ اِسلام سے پہلے بھی بت پرستی سے نفرت تھی اور شراب نوشی کوبُرا جانتے تھے۔ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے تاریخ الخلفاءمیں حضرت ابو نعیمؒ کے حوالے سے اُم المو¿منین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ”امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے عہدِ جاہلیت میں ہی شراب اپنے اُوپر حرام کر رکھی تھی“۔ (تاریخ الخلفاءص۲۴) حضرت ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ”امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ نے جب اِسلام قبول کیااُس وقت اُن کے پاس چالیس ہزار درہم تھے جوسب کے سب اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ کے راستے میں خرچ کردیئے “۔ (تفہیم البخاری جلد۵، مرآة شرح مشکوٰة جلد۸)۔حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم سے روایت فرماتے ہیں: ”بے شک جس نے میرے ساتھ اپنی جان اور مال کے ذریعے لوگوں سے بڑھ کر اِحسان کیا ہے وہ ابوبکر ؓ ہیں۔
امیر المو¿منین حضرت سیّدنا علیؓ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم کااِرشادِمقدس ہے: ”امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکرؓ اور امیر المو¿منین حضرت سیّدنا عمر بن خطاب اَنبیاءکرام اور مرسلینؑ کے علاوہ تمام اَوّلین وآخرین کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔ اورامیرا لمومنین حضرت سیّدنا علیؓ کوحکم فرمایا اے علیؓ جب تک یہ زندہ ہیں اِن کواِس بات کی خبر نہ دینا“۔ (مجموعہ احادیث)۔حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم کااِرشادِمقدّس ہے: ”کوئی نبیؑ اَیسے نہیںہوئے جس کے دو وزیر آسمان والوں اور دو وزیر زمین والوں میں نہ ہوئے ہوں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں حضرت جبرائیلؑ اور حضرت میکائیلؑ ہیں جب کہ دو وزیرزمین والوں میں ابوبکرصدیق اور عمر فاروق ؓ ہیں۔ (ترمذی ‘ مشکوٰة‘ کنزالعمال)
ایک مرتبہ جب رسول اللہ پر بیماری کی شدّت تھی،حضرت عبداللہ بن زمعہ صحابہ کرامؓ کی معیّت میں آپ کے پا س بیٹھے تھے کہ اِتنے میںحضرت سیّدنابلالؓ آپ کو نماز کے واسطے بلانے کے لےے حاضر ہوئے۔آپ نے فرمایا:”کسی اور کو حکم کرو“۔ حضرت عبداللہ بن زمعہؓ فرماتے ہیں‘ میں باہر نکلاتو امیر المو¿منین حضرت سیّدنا عمر بن خطابؓ ملے۔ جبکہ اُس وقت امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ موجود نہ تھے۔ چنانچہ حضرت سیّدنا عمر فاروق ؓ آگے بڑھے اور اُنہوں نے تکبیر کہی جب رسولِ کریم رﺅف و رحیم نے اُن کی آوازسنی۔ آپ نے فرمایا۔ابوبکرؓ کہاں ہیں؟۔اللہ جل شانہ اِس کا اِنکار فرماتاہے اور اللہ جل شانہ¾ کی طرح مسلما ن بھی اِنکارکرتے ہیں۔پھر آپ نے امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکرؓ کوبلوایا۔ اُنہوںنے لوگوں کو نمازپڑھائی وہی نماز جس کوامیر المو¿منین حضرت سیّدناعمر بن خطابؓ پڑھاچکے تھے۔ امیر المو¿منین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ رسولِ کریم کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔تمام صحابہ کرام حضرت سیّدنا ابو بکر صدیقؓ کے مقام و مرتبہ سے اچھی طرح باخبر تھے اور اُسی کے مطابق آپ کا اَدب و احتر ام کرتے تھے۔