ہندو قومیت کا نعرہ کانگریس کے بھارتی قومیت کے نعرے کے سامنے ماند پڑگیا۔ لیکن سرسوتی اور اس کے نامور چیلوں نے ہندو سماج کو نظریاتی بنیاد فراہم کر دی تھی اور وہ پس منظر میں متوازی تحریک کے طور پر اپنا کام کرتی رہی۔ کانگریس نے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا اور بہت جلد وہ ایک بڑی اور موثر تنطیم بن کر سامنے آئی۔
1885 میں قائم ہونے والی کانگریس نے پر اعتماد انداز میں انگریز سرکار سے مغرب کی اپنی تخلیق کردہ اقدار اور نظریات کی بنیاد پر مقامی لوگوں کو ان کا حقِ حکمرانی اور انتقالِ اقتدار کا مطالبہ کردیا۔ اس وقت کی کانگریسی قیادت میں دادا بھائی نوروجی، بال گنگا دھرتلک، بپن چندر پال، موتی لال نہرو اور گوپال کرشن گوکھلے جیسی شخصیات شامل تھیں۔ نوروجی، جو برطانوی دارالعوام کے پہلے ایشیائی رکن تھے، اور گوکھلے دونوں نے نوجوان اور کم عمر بیرسٹر محمد علی جناح پر زبردست اثرات چھوڑے تھے۔ یہ دونوں معتدل مزاج اور پر امن انتقال اقتدار کے خواہاں تھے۔ ان رہنمائوں کے نزدیک ہندوستانی قوم جغرافیائی حقیقت تھی۔ برطانوی ہند کے تمام لوگ اس قوم میں شامل تھے اور یہ قوم یہاں بسنے والوں کے عقائد، معاشرت اور رنگ و نسل پر مبنی نہیں تھی۔ بعد ازاں موہن داس کرم چند گاندھی بھی اس قافلے میں شامل ہوگئے۔ گوکھلے کی شخصیت نے گاندھی جی پر بھی اثرات مرتب کیے جن کو وہ اپنا سیاسی گرو کہا کرتے تھے۔کانگریس کو تحریک کے مقاصد اور انکے حصول کیلئے طریقہ کار کے تعین میں ابتداً اختلافات کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ دیر کیلئے کئی لیڈرز پارٹی چھوڑ کر بھی چلے گئے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم نے مقامی سیاست کا نقشہ یکسر بدل دیا۔ کانگریس نے برطانوی سامراج پر دباؤ بڑھانے کیلئے سوراج (مقامی حکمرانی) کا نعرہ بلند کردیا۔
جنگ کے دوران اور اسکے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس کی مشرق وسطیٰ میں جغرافیائی چیرہ دستیوں پر عالم اسلام اور خصوصاً بھارتی مسلمانوں میں شدید بے چینی پھیل گئی۔ دوسری جانب بھارت میں اندرونی اتحاد کو قائم رکھنے کیلیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کا اس دور ابتلاء میں ساتھ دیا جائے۔ لہٰذا خلافت تحریک کی قیادت خود گاندھی جی نے اٹھالی اور وہ ہندو مسلمان اتحاد کا بڑا نشان بن گئے لیکن اگر ایک جانب اس نے انگریز سرکار کو باہمی اتحاد کا پیغام دیا تو دوسری جانب ہندو قوم پرستوں کے ہاتھ نیا ہتھیار آگیا اور وہ جن خدشات کا پرچار کر رہے تھے اس کا ثبوت مہیا ہوگیا۔ ہندو قوم پرستوں کا موقف تھا کہ ہندوئوں کو اکڑیت کے باوجود انکے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور انگریز سرکار ایک جانب مسلمانوں کی پنجاب اور بنگال میں سرپرستی کرکے ہندووں کو کمزور کر رہی ہے اور دوسری جانب پہلے قسطنطنیہ کی خوشنودی کیلئے مسلمانوں پر نوازشیں ہوتی رہیں اور بعد ازاں جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ہندوئوں کو خلافت کے بچاؤ کی خاطر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس تنقید سے بچاؤ کیلئے گاندھی جی نے ہندو سماج کے تمام نشانوں کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں کھلے عام استعمال کرنا شروع کردیا، جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے قابل قبول نہیں تھا۔ موتی لال اور جواہر لال نہرو باوجودیکہ ہندو قومیت کے برعکس ہندوستانی قومیت کے حامی تھے، لیکن ہندو اکثریت کو وہ اپنا حقیقی اثاثہ سمجھتے تھے۔ لہذا جب مسلمانوں اور سکھوں نے اس بنیاد پر سوچنا شروع کیا تو انہوں نے اس کیلئے ایک تحقیر آمیز اصطلاح ’فرقہ پرستی‘ (communalism) کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس دوران انگریز سرکار نے پہلے پنجاب اور بعد ازاں بنگال میں مسلمانوں کو مقامی سطح پر جداگانہ انتخاب کا حق دے دیا جس پر کانگریس اور ہندو قوم پرست خاصے مشتعل ہوئے۔
ہندو سبھاؤں کو منظم کرنے کا کام سرسوتی کے ہوتے ہوئے پنجاب میں شروع ہوگیا تھا۔ اب اس کی تعلیمات سے اتفاق نہ کرنے والے دیگر صوبوں میں بھی یہ کام شروع ہوگیا۔
جس شخصیت نے اس کام کو آگے بڑھایا وہ مدن موہن مالویہ (1861-1946) ہیں جو ذات کے برہمن تھے۔ انہوں نے سرسوتی کی تعلیمات کے برخلاف بت پرستی، ذات پات کا نظام برہمنوں کی مذہبی قیادت اور دیگر مقامی رسوم کو قائم رکھتے ہوئے سناتن دھرم کی بنیاد پر سبھاؤں کو منظم کرنا شروع کردیا، جو انتہا پسند ہندو قومیت کا دوسرا رنگ تھا۔ یہ منظم تنظیمیں بہت جلد اتر پردیش، بہار، بنگال، مدھیہ پردیش، مہاراشڑرا اور دیگر علاقوں میں پھیل گئیں۔
سناتنی اور آریہ سماج کی علیحدہ تحریکوں نے باہمی اتحاد کیلئے ہندو مہاسبھا کی بنیاد رکھی جو متذکرہ سیاسی تبدیلیوں کے پس منظر میں ہندو مسلم فساد کی بنیاد بنی۔ درحقیقت سبھائی قیادت (خصوصاً لالہ لاجپت رائے (1865-1928) پنجاب سے اور مالویہ اتر پردیش سے) جو کبھی مغربی تہذیب اور کبھی عیسائی مذہب کے سرکاری سرپرستی میں فروغ پر پریشان رہی ہو گی، وہ بدلتے حالات میں دیکھ رہی تھی کہ حقیقی خطرہ اب مسلمانوں سے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سبھاؤں کے لیڈرز سیاسی طور پر کانگریس کے زیر سایہ کام کررہے تھے اگرچہ اس طور ان کا کوئی سیاسی وزن نہیں تھا۔
کانگریس کی برتری اسقدر ہمہ گیر تھی کہ اس میں انتہا پسند ہندو خیالات کو جگہ ملنا مشکل تھا، خصوصاً جب گاندھی جی کی لیڈرشپ مضبوط ہوگئی۔
ہندو سبھا کی قیادت شمالی ہندوستان سے منتقل ہوکر مرکزی صوبوں برار اور بمبئی کی طرف آگئی، جہاں انتہا پسندی نسبتاً زیادہ تھی۔ انہیں میں سے ایک کردار نائیک ساورکر (1883-1966) کا ہے جو مہاراشڑرا کے ایک برہمن گھرانہ سے تعلق رکھتا تھا اور انتہا پسند اور نام نہاد انقلابی طبعیت کا مالک تھا۔ اس نے طالب علمی کے دور میں لندن میں برطانوی سامراج کیخلاف تحریکوں کو شروع کیا اور انکی سرگرمیوں میں شریک رہا۔ اس کو جب گرفتار کیا گیا تو اس نے فرار کی کوشش کی جس کے بعد اسے دو دفعہ عمر قید کی سزا اور کالا پانی میں قید کیا گیا۔
بعد ازاں 1921 میں اس نے معافی مانگی اور اس کی سزا میں تخفیف ہوئی لیکن یہ جنون کی حد تک مسلمان دشمن تھا۔ اے جی نورانی کی تازہ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قتل کی کئی وارداتوں میں بھی ملوث تھا۔ حتیٰ کہ گاندھی جی کے قتل میں بھی اس کا ہاتھ تھا۔ ساورکر کو ’’ہندوتوا‘‘ کا بانی کہا جاتا ہے۔
اس نے اپنی کتاب کا نام بھی ہندوتوا رکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے ہندوئوں کا دیش رہا ہے اور وہ صرف مذہب پر مبنی نہیں ہے۔ مذہب اس کا صرف ایک حصہ ہے، جو اہم ترین بھی نہیں ہے۔ اسکے نزدیک سب سے اہم حصہ زمین ہے جسے وہ ’آریاورت‘ کہتا ہے۔ اسکے بعد نسل کا حصہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہاں کے باسی ایک نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اْن لوگوں کی جو ویدک ادوار سے یہاں مقیم ہیں۔ ہندوتوا کا تیسرا حصہ زبان ہے جس میں وہ سنسکرت کی بات تو ضرور کرتا ہے لیکن اس کو ’ہندی‘ سے جوڑ دیتا ہے۔
اسکے ساتھ ہی اسکی وضع کردہ ’تثلیث‘ مکمل ہوجاتی ہے: ہندو، ہندوستان اور ہندی۔ اس شناخت کے بعد وہ کہتا ہے کہ اس کسوٹی پر ہندو، سکھ اور بدھ مت کے ماننے والے پورا اترتے ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے یعنی مسلمان، عیسائی، یہودی اور پارسی وغیرہ یا تو وہ باہر سے آئے ہیں یا پھر انہوں نے اپنا دھرم بدلا ہے۔ گو بظاہر وہ تبدیلی مذہب کا مطالبہ نہیں کرتا لیکن وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اگر یہ لوگ یہاں رہنا چاہتے ہوں تو انہیں اکثریت کی معاشرت اور ثقافت اور ان کے نشانات کو قبول کرنا ہوگا گو کہ ان کو نجی زندگی میں اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہوگا۔
ساورکر کی متذکرہ تخلیق، اسی عمل کا حصہ ہے جس میں برطانوی سامراج کے بعد ہندو برہمن قیادت اپنے لوگوں کی عددی برتری کو قائم رکھنے کیلئے ایک ایسے مذہب کی متلاشی رہی ہے جو انکے بکھرے لوگوں کی شیرازہ بندی کرسکے۔ ساورکر نے وہ مذہب تخلیق کردیا۔ اس نے مغرب سے نسل پرستی پر مبنی قوم پرستی کے نظریات سے متاثر ہوکر ہندوئوں کیلئے بھی قومیت کا ایک بت تراش دیا۔
وہ خود کو لادینی کہتا تھا لیکن مسلمانوں کیخلاف اسکے جذبات معقولیت کی حد سے گزرے ہوئے تھے۔ اسکی شدت پسندی کی سب سے بڑی وجہ تحریک خلافت تھی اور گاندھی جی کی اس سے وابستگی اور بعد ازان تقسیم ہند پر انکی رضا مندی‘ بس یہی دو باتیں انتہا پسند ہندوؤں کے نزدیک ناقابل معافی تھیں‘ جس کا خمیازہ انہیں (گاندھی جی) اپنے قتل کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ (جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024