ایک طرف یہ بات اطمینان بخش ہے کہ لاہور کے بیشتر بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی خصوصی توجہ حاصل کی ہے اور میوہسپتال، سروسز ہسپتال، گنگا رام ہسپتال، چلڈرن ہسپتال اب بدلے بدلے سے لگتے ہیں تو وہاں لیڈی ولنگڈن کے نام سے ایک ہسپتال ایسا بھی ہے جو وزیراعلیٰ شہباز شریف، وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق اور سیکرٹری ہیلتھ نجم احمد شاہ کی خصوصی توجہ سے محروم چلا آ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس ہسپتال میں بھی بوسیدہ درودیوار نیا رنگ دکھاتے۔ اس کا اتنا بجٹ ہوتا کہ کسی غریب مریضہ کوضروری ڈیڑھ ہزار کے ٹیکے کے لئے بجٹ نہ ہو نے کا دکھ نہ سہنا پڑتا ۔ اس کے آپریشن تھیٹر تک کے بیڈ اتنے بدوضع نہ ہوتے کہ مریضہ دیکھ کر خوفزدہ ہو جائے۔ کہنے کو لیڈی ولنگڈن ہسپتال پنجاب بھر میں زچہ و بچہ کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔ پنجاب بھر اور خصوصاً لاہور ڈویژن کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی اس آخری امیدگاہ کا ایک بڑا تاریخی پس منظرہے۔ قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے 1933میں برصغیر پاک وہند کے 22 ویں وائسرائے کی بیگم کے نام پر اس دور کی فورٹ روڈ پر اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اب 235 بستروں پر مشتمل اس ہسپتال میں ہزاروں دکھی خواتین کو علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں اور ہائر ایجوکیشن، پی ایم ڈی سی، سی پی ایس پی اور رائل کالج (یوکے) کی طرف سے ٹیچنگ ہسپتال کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کی گائنی کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ساتھ نرسوں کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ پاکستان کے چوٹی کے ڈاکٹروں کی ایک بڑی کھیپ یہاں خدمات انجام دے رہی ہے۔ میو ہسپتال کی طرح لیڈی ولنگڈن ہسپتال بھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا لازمی حصہ ہیں۔ اس سنہری پس منظرکے ساتھ ساتھ لیڈی ولنگڈن ہسپتال اسی برسوں پرانی عمارت کے شکستہ ڈھانچے میں موجود ہے۔ یہاں کسی کو نہ تو سرجیکل ٹاور جیسے منصوبے کا خیال آیا ہے اور نہ کسی بڑی این جی اوز نے میو ہسپتال کے ایسٹ میڈیکل وارڈ کی طرح وارڈوں کی حالت بدلنے کی طرف توجہ دی ہے۔ علاقے کے ایک اہم مسلم لیگی (ن) کا کہنا ہے کہ یہ ہسپتال شاید اس لئے حکومت کی توجہ حاصل نہیں کر سکا کہ بادشاہی مسجد اور مینار پاکستان کے درمیان فلائی اوور بناتے وقت اس ہسپتال کو مختصرکرکے کسی اور جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ تھا جس کی مقامی طور پر میڈیا میں اور برطانیہ کے متعلقہ حلقوں کی طرف سے مخالفت ہوئی چنانچہ ہسپتال اپنی جگہ پر رہ گیا لیکن سرکاری محبتوں سے محروم ہوگیا۔ نشانی کے طور پر یہ بتایا گیا کہ اس اہم اور مصروف ترین ہسپتال میں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ مینار پاکستان سے آنے والی ٹریفک اور تمام مضافاتی علاقوں کی فلائی اوور سے آنے والی اور ہسپتال میں داخل ہونے والی گاڑیوں میں ٹکرکا سلسلہ اکثرجاری رہتا ہے۔ ہسپتال کے ذمہ داران اس ڈر سے حکام بالا کو مسائل سے آگاہ نہیں کرتے کہ کوئی ناراض نہ ہو جائے حالانکہ سیکرٹری صحت وزیر صحت اور وزیراعلیٰ کو ہسپتال کے حقیقی دکھوں سے آگا ہ کرنا ہی دراصل حکومت کی خدمت ہے کیونکہ مسائل حل نہیں گے توخلق خدا دعائیں دے گی۔ حکومت کو نیک نامی ہوگی تو ہسپتال انتظامیہ کے درجات بھی بلند ہوں گے۔ یہ ایک ہسپتال کا معاملہ نہیں۔ ہزاروں لاکھوں خاندانوں کے سکھ دکھ کا معاملہ ہے، آنے والی زندگی کا معاملہ ہے، مستقبل کی زندگی کو دوام بخشنے والی ماؤں کا معاملہ ہے اور ان گنت ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کا معاملہ ہے جو ان دنوں شیر شکرکرکے بے چین کر دینے والے ماحول میں سکھ چین بانٹنے میں لگے ہیں۔ لوگ جب چلڈرن ہسپتال کی نئی عمارات سروسز ہسپتال میں اور کارڈیالوجی میں بدلتی ہوئی عمارتوں کو دیکھتے ہیں اور پھر لیڈیز کے اس سب سے بڑے ہسپتال کی حالت زار کو دیکھتے ہیں تو خادم اعلیٰ کو مخاطب کرکے اس سب سے بڑے ہسپتال کی حالت زار کو دیکھتے ہیں توخادم اعلیٰ کو مخاطب کرکے پکار اٹھتے ہیں کہ ’’تجھ پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے‘‘ اس لئے ایک بار انہوں نے آ کر اس کی حالت زار دیکھ لی تو بجٹ بھی بڑھ جائے گا۔ اہم ترین ادویات بھی ہوں گی اور فرنیچر سے عمارت تک سب کچھ بدلنا محسوس ہو گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024