پاکستان نے دہشت گرد گروپوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کئے نہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کریں گے: امریکہ
واشنگٹن (آئی این پی) امریکہ نے کہا ہے کہ وہ بلوچ علیحدگی پسند تحریک کی حمایت نہیں کرتا،ہم سختی سے پاکستان کی علاقائی سلامتی کی حمایت کرتے ہیں اور بلوچ دراندازی کے حق میں نہیں ہیں ناہی کسی ایسی تحریک کی تائید کرتے ہیں، ہمارا پیغام یہی ہے کہ اگر کوئی بھی دہشت گرد گروہ خطے میں کسی بھی ملک کے خلاف پرتشدد کاروائی کرے گا تو اس کا مقابلہ کرنا ہوگا، فی الحال پاکستان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن اور مستقل بنیادوں پر اقدامات نہیں دیکھے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کی سینئر اہل کار ایلس ویلز نے واشنگٹن میں یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس تھنک ٹینک میں افغانستان کے حوالے سے سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے کہاحال ہی میں امریکی حکومت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے تین رہنمائوں کے بارے میں اطلاع دینے پر انعام کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ان گروہوں کے بھی خلاف ہے جو پاکستان مخالف ہیں اور ان کے بھی جو افغانستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔پاکستان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اقدامات کے بارے میں وی او اے اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ نے فی الحال پاکستان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن اور مستقل بنیادوں پر اقدامات نہیں دیکھے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ پاکستان صدر غنی کی جانب سے دی گئی تجاویز کی حمایت اور عمل داری کے لیے کیا کر سکتا ہے۔پاکستان افغانستان تعلقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا امریکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے ان کوششوں کے حق میں ہے جو جنرل باجوہ کے اکتوبر 2017 کے دورہ کابل کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کے لیے کی گئی تھیں۔امریکہ کی خطے میں دہشت گرد گروہوں کے بارے میں پالیسی اور پاکستان کے خدشات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ویلز کا کہنا تھا ہم سختی سے پاکستان کی علاقائی سلامتی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم بلوچ دراندازی کے حق میں نہیں ہیں؛ اور ناہی کسی ایسی تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمارا پیغام یہی ہے کہ اگر کوئی بھی دہشت گرد گروہ خطے میں کسی بھی ملک کے خلاف پرتشدد کاروائی کرے گا تو اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کو سیاسی دھارے میں شمولیت کی دعوت کے بارے میں، ان کا کہنا تھا کہ کابل عمل ایک سنجیدہ قدم ہے اور امریکہ پاکستان کے ساتھ ان معاملات پر تعاون کے لیے گفتگو جاری رکھنے کا خواہشمند ہے۔ دی نیشن کے مطابق امریکہ کے سینئر سفارتکار کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کیے جائیں گے کیونکہ طالبان امن عمل میں رکاوٹ ہیں۔ طالبان کو پہلے افغان حکومت سے بات کرنا ہوگی۔