جہنم بنا مشرق وسطی اور ترک و کرد کا مسئلہ
مکرمی : موقر روزنامہ نوائے وقت 6 مارچ 2018 میں "جہنم بنا مشرق وسطی اور ترک و کرد مسئلہ کے عنوان سے محی الدین بن احمد دین کے کالم کے حوالے سے یہ سفارت خانہ تجدید احترام کے ساتھ کالم کے مندرجات کو جھٹلاتے ہو مندرجہ ذیل امور کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے .رہبر معظم اسلامی جمہوریہ ایران کی غیر جمہوری نظام کیشہ نشاہ سے تشبیہ سے متعلق یہ واضح کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا سسٹم جمہوری نظام ہے جس کے ذمہ داران عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں . انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک چالیس انتخابات ہو چکے ہیں . رہبر اعلی کا انتخاب بھی ایسی ماہرین(اکسپرٹس) کونسل کی طرف سے عمل میں لایا جاتا ہے جس کے نمائندے بھی ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں ۔عالم اسلام میں اختلافات ڈالنا، جنگ اور خونریزی پھیلانا، استکباری طاقتوں کی اہم ترین پالیسیوں میں سے ہے، تاکہ اس طرح اپنے مفادات کا تحفظ آسانی سے کر سکیں. مختلف انتہا پسند گروہوں کا قیام اور انکی حمایت، جیسا کہ داعش، بھی اسی پالیسی کی بنیاد پرعمل میں آیا اور یہ عمل جاری ہے. صدر امریکہ ڈونلد ٹرامپ کے مطابق داعش کے قیام میں ان کے ملک کا اہم کردار رہا ہے.۔شام کے حالات پرغور کرنے سے بڑی آسانی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شام میں قانونی حکومت کیخلاف محاذ بنانے کا عمل یقینا اور مسلمہ طور پر سیاسی عزم کے بغیر اور خطے کے بعض مرتجع ممالک کی مالی اور لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ممکن نہ تھا. افسوس ہے کہ مذکورہ ممالک نے امریکہ کی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے اپنی مالی اور لاجیسٹک سپورٹ کے ذریعے انتہا پسند گروہوں کے قیام اور انکی سرگرمیوں کو جاری رکھنے اور دہشتگردی جیسے مذموم فنامنہ کی پیدایش میں اہم قدم اٹھایا ہے .۔اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ اسلامی معاشروں کے اتحاد کا حامی اور انتہا پسند اور دہشتگرد تحریکوں کے خلاف قائم فرنٹ محاذ میں شامل ہوا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنے تجربات کی بنیاد پر، دوسروں کی بھی مدد کی ہے. ایران نے عراق اور شام کی حکومتوں کے باقاعدہ بلانے پر، اپنے فوجی مشیر وہاں بھیجے تا کہ وہاں کے لوگوں کے کاندہے سے کاندھا ملا کر تکفیری دہشتگردی کے خلاف لڑ سکیں اور انہیں دوسرے ممالک تک پھیلنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکیں. خوش قسمتی سے مسلسل اقدامات اور مبارزے کی بدولت، داعش جیسے دہشتگرد گروہ کوعراق اور شام میں شکست دی گئی اور اس گروہ کی زندگی کا چراغ ان دونوں ممالک میں گل کر دیا گیا ہے.دنیا میں دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں پر غور کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ داعش انسان دشمنی میں بے مثال اور شقی ترین دہشتگرد گروہ ہے. یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والی قربانیوںاور جانفشانیوں کی اہمیت اوراسلامی جمہوریہ ایران اور خطے کے دوسرے تمام آزاد منش معاشروں کی طرف سے اس گمراہ اور شیطانی تحریک کے خلاف عمل میں لائی جانے والی کوششوںسے پتہ چلتا ہے۔داعش جیسے متشدد اور منحرف تحریک کی شکست کا بنیادی فایدہ یہ ہوا ہے کہ امت مسلمہ کے ایجنڈے پر سر فہرست اور ترجیحی مسئلہ فلسطین اپنی اصلی اہمیت پر واپس آ چکا ہے . اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف یہ ہے کہ مشرق وسطی میں عدم استحکام اور بدامنی کی سب سے بڑی وجہ، آزاد فلسطینی مملکت پر قبضے کا مسلسل برقرار رہنا، صیہونی حکومت کے لئے امریکہ کی بے دریغ اور جانبدارانہ حمایت،فلسطین کی قدس کے دارالحکومت کے ساتھ آزاد مملکت کے عدم قیام اور مظلوم فلسطینی عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا ہے.ایران خطے کے تمام ممالک خصوصا بڑے اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کی مذمت کرتے ہیں یہ سمجھتا ہے کہ بڑی طاقتیں، بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر عالم اسلام میں مختلف چیلنجز اور خونریزی میں ملوث ہیں اور اختلاف ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں. پس اس بنا پر مسلمانوں کے اتحاد، دلوں میں قربتیںلانے اور فاصلوں کو مٹانے کی خاطر قدم اٹھانے کیلئے تیار ہے. یہ بات باعث امتنان ہو گی کہ پریس (مطبوعات) کے مسلمہ اصولوں کے مطابق یہ جوابی موقر روزنامے میں مناسب جگہ پر چھاپنے کا انتظام کیا جائے (سید عباس بدریفر ،پریس اتاشی ،سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران،اسلام آباد)