کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں قیادت کا بحران
سینیٹ کے الیکشن کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اور سندھ کے شہری علاقے جن میں حیدرآباد اور سکھر خاص طور پر شامل ہیں۔تقریباً اس اعلی ایوان میں نمائنددگی سے محروم ہوگئے ہیں۔ایم کیو ایم کے صرف ایک سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم کامیاب ہوئے اور وہ بھی ٹیکنیکل بنیادوں پر۔سینیٹ میں صوبے کے طے شدہ تناسب کے لحاظ سے کراچی اور اربن سندھ کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کو 5 سیٹیں ملنی چاہیئے تھیں تاکہ ان کی کل تعداد سینیٹ میں 11 ہوجائے۔لیکن سینیٹ کے الیکشن سے چند روز قبل ایم کیو ایم (پاکستان) میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی اس کی وجہ سے یہ الیکشن براہ راست متاثر ہوئے اور وہ ان الیکشن میں تقریباً نہ ہونے کے برابر کامیابی حاصل کرسکے۔سیاسی جماعتوں کے لیڈر بھی یہ کہہ رہے ہیں اور سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ جو خلا ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ سے پیدا ہوا ہے اب دیگرجماعتیں پورا کریں گی جن میں پی ٹی آئی ، پی پی پی اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کا اصل فائدہ بظاہر پی پی پی کو ہوا جو سینیٹ کی 11 نشستوں میں سے 10 نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ بظاہر یہ بڑی فتح ہے اور پی پی پی کے لیڈروں کو خوش ہونا چاہیئے جو انہوں نے وہ کامیابی حاصل کی جو ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو۔ اس کا ایک دوسرا اہم پہلو بھی ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اسے عروس البلاد کہا جاتا ہے۔ یہ اب تک ملک کی واحد بندرگاہ ہے جس پر تمام تر تجارت کا انحصار ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ شہر ملک کا 62 فیصد ریوینو فراہم کرتا ہے۔ اب اچانک چاہے وہ کسی حادثے کے طور پر بھی ہو اس کی سب سے بڑی سیاسی اور نمائندہ جماعت کا قومی منظر میں بے اثر ہوجانا مجموعی قومی صورتحال کے لیئے کوئی خوش آئند بات نہیں کہی جاسکتی۔ 2 کروڑ کی آبادی والے شہر میں پہلے ہی مسائل کی بھر مار ہے انفراسٹرکچر تباہ ، گندگی کے پہاڑ ، ٹرانسپورٹ اور صحت کا بدترین نظام ، جبکہ مقامی آبادی کے لیئے سستی اور معیاری اعلیٰ تعلیم کا حصول بھی دشوار ہوتا جارہا ہے۔مجموعی طور پرروشنیوں کا یہ شہر اندھیروں کی نگری بنتا جارہا ہے۔ بلا شبہ گزشتہ دو سالوں میں شہر کی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے جس کا کریڈٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص طور پر رینجرز کو دیا جاسکتا ہے۔ تاہم شہر ی حکومت اپنے میئر کی موجود گی کے باوجود بالکل بے بس اور لاچار نظر آتی ہے۔اسی لیئے شہر میں مختلف بلدیاتی سہولتوں کی شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے۔دوسری طرف آبادی میں اضافہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ اب اگر ملک کے قومی ایوانوں میں اس شہر کی اصل نمائندگی بھی ختم ہوجائے ،جسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے تو کیا یہ ساری قوم کے لیئے لمحہ فکریہ نہیں ؟۔1974 کے بعد سے یہاں کے شہریوں کا فوکس قومی سیاست کے بجائے شہری سیاست پر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی سمیت حیدرآباد اور سکھر میں شہری سہولتوں کا فقدان تھا۔آبادی کے لحاظ سے یہاں پر ترقیاتی کام نہ ہوئے جس نے لوگوں کے لیئے اتنی شدید مشکلات پیدا کردیں جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کے لیئے زندگی گزارنا دشوار ہوگئی۔ ملازمتیں ایک انتہائی محدود تعداد میں بدنام زمانہ کوٹہ سسٹم کے تحت ملتی ہیں۔کوئی تعجب نہیں کہ ایسی صورت میں یہاں پر لسانی اور شہری سیاست کو فروغ حاصل ہوا اور ایم کیو ایم کی شکل میں ایک سیاسی جماعت سامنے آئی۔اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقے اسی کو اپنی نمائندگی کا حق دیتے رہے۔اب اس جماعت کا اچانک قومی سیاسی افق سے غائب ہو جانا یہاں کے لوگوں کے لیئے کسی طور بھی کوئی خوش خبری نہیں۔وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ ان کے شہروں کے معاملا ت آئندہ کیسے چلائے جائیں گے۔ ان کے مسئلوں کی قومی سطح پر نمائندگی کیسے ہوگی۔ اگر دو چار پارٹیاں بندر بانٹ کر کے قومی اسمبلی کی سیٹیں بھی لے جاتی ہیں تو یہ کس طرح ایم کیو ایم کے ووٹروں کو مطمئن کر سکیں گے؟۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا یہ ساری صورت حال سیاسی اور قومی یکجہتی کے لیئے قابل رشکسمجھی جاسکتی ہے ؟۔ شاید اس سے کچھ سیاسی جماعتوں کو اس سے وقتی فائدہ تو ہو جائے گا لیکن اگر جائز اور صحیح سیاسی اور جمہوری طریقوں سے کر اچی اور اربن سندھ کے لوگوں کو نمائندگی نہ مل سکی تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی لسانی یا کسی سیاسی جماعت کا معاملہ نہیں بلکہ سندھ کی آدھی آبادی کا مسلئہ ہے جن کی نمائندہ جماعت کچھ عرصے پہلے تک یہ کہتی تھی کہ صوبے کا وزیر اعلی ان کا ہوگا۔
ایم کیو ایم پر بہت سارے الزامات ہیں جس میں بھتہ خوری اور تشدد شامل ہیں اور غالبا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اسے سیاسی طور پر یہ سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔خود اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ممبر کئی معاملات میں اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ تمام تر دباو کے باوجود شہری ووٹر اسی جماعت کو ووٹ دے کر سینیٹ سے لے کر بلدیاتی اداروں میں منتخب کرتے رہے ہیں۔ایم کیو ایم اپنی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کے جواز کے طور پر بہت ساری باتیں کہتی ہے۔بہت سارے اداروں اور سیاسی جماعتوں پر الزامات بھی لگاتی ہے۔اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا جھوٹ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ کراچی اور اربن سندھ کو ہر صورت میں اس کی اصل نمائندگی ملنی چاہیئے۔ ملک کے دوسرے شہروں کی طرح اس شہر کے اصل نمائندوں کو ایوانوں میں جاکر اپنا قومی کردار ادا کرنا چاہیئے۔ کسی سیاسی اپ سیٹ ،جوڑ توڑ اور پولیٹیکل انجنیئرنگ کے ذریعہ سیاسی جماعتوں کو ان شہروں پر نمائندگی کے لیئے مسلط کرنا کس حد تک مناسب ہوگا اس پر ساری قوم کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔