جج کو گولیاں دہشت گردوں نے ماریں‘ پولیس غلط بیان دینے کیلئے ہراساں کر رہی ہے: ریڈر
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اسلام آباد کچہری واقعہ کی تحقیقات کے لئے آزادانہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائیں۔ کمیٹی میں اسلام آباد پولیس کو شامل نہ کیا جائے جبکہ عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد پولیس کی ایف ایٹ کچہری واقعہ سے متعلق رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو حکم دیا ہے کہ وہ دو روز میں نئی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی تحقیقاتی کمیٹی کو اپنی تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے کمیٹی کو حکم دیا کہ وہ تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے۔ عدالت نے ایف ایٹ کچہری واقعہ سے متعلق سیاسی شخصیات کو بیان دینے سے روکتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اہم شخصیات کے بیانات کیس کی تفتیش متاثر کر سکتے ہیں عدالت نے ایف ایٹ کچہری واقعہ کی الگ الگ ایف آئی آر درج کرنے کی استدعا مسترد کر دی جبکہ دوران سماعت چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز نے عدالتوں کی سکیورٹی کے بارے میں رپورٹس عدالت میں جمع کرا دیں۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ملک بھر کی عدالتوں کی سیکورٹی سخت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد آئی جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور دو تھے، انہوں نے فائرنگ کرنے کے بعد خود کو بھی دھماکے سے اڑا لیا جبکہ چیف کمشنر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آور دو سے زائد تھے، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہاکہ آئی جی اور چیف کمشنر دونوں حملہ آوروں کی صحیح تعداد بتانے سے قاصر ہیں، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا واقعہ کے بعد حملہ آوروں کا پیچھا کیا گیا، کیا پولیس نے حملہ آوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوئی کوشش کی، کیا واقعہ کے بعد اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستے بلاک کئے گئے، چیف جسٹس نے ان سوالات پر دو دن میں جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں سکیورٹی کی یہ صورتحال ہے تو ملک کے دیگر حصوں میں کیا ہو گی۔ جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ ملزمان واقعہ کے بعد نکل جاتے ہیں اور پولیس اور انتظامیہ لکیر پیٹتی رہ جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حیران ہیں کہ آئی جی کے مطابق دہشت گردوں کی تعداد صرف دو تھی۔ ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کے بھائی کرنل صفدر اور ریڈر خالد نون بھی عدالت میں پیش ہو گئے۔ ریڈر خالد نون نے عدالت کو بتایا کہ اے ایس پی اے آر عزیز انہیں اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک ہراساں کرتا رہا اور کہا جاتا رہا کہ بیان دو، ورنہ تم پر 302 لگا دیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو کہا جا رہا ہے کہ وقوعے کے بارے میں کوئی خاص بیان دیں۔ گھبرائیں ناں کھل کر بتائیں۔ ریڈر خالد نون نے جواب دیا کہ انہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ بیان دیں کہ عدالت کے اندر سے رفاقت اعوان کو گولی ماری جبکہ میں نے حملہ آوروں کو جج پر گولی مارتے دیکھا۔ دہشت گردوں نے رفاقت اعوان کو گولیاں ماریں، رفاقت اعوان کے بھائی کرنل صفدر نے کہا کہ ریڈر کا بیان جھوٹ پر مبنی ہے۔ رفاقت اعوان کو کسی حملہ آور نے نہیں بلکہ چیمبر کے اندر سے گولی ماری گئی کسی حملہ آور نے باہر سے رفاقت اعوان کو گولی نہیں ماری۔ جج صاحب کے چیمبر میں چار گولیاں چلیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں مگر آپ عینی شاہد نہیں آپ لوگوں کے ایسے بیانات کیس کی تفتیش کو متاثر کر سکتے ہیں۔ معاون وکیل شیخ احسن الدین نے کہا کہ چودھری نثار کا بیان تفتیش کو متاثر کرنے کی کوشش ہے۔ وزیر داخلہ نے معاملے کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کے اندر کے لوگوں کا دہشت گردوں کے ساتھ ملنے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت 17مارچ تک ملتوی کر دی۔