سیاسی میدان میں کسی کے اشارے پر نہیں مجبور ہو کر نکلی ہوں: بیگم نسیم ولی
صوابی (اے این این) عوامی نیشنل پارٹی ولی کی سر براہ و بزرگ سیاستدان بیگم نسیم ولی خان نے کہا ہے کہ وہ سیاسی میدان میں کسی کے اشارے پر نہیں بلکہ مجبور ہو کر نکلی ہیں، سیاست کرنا جانتی ہوں، ولی باغ کے دروازے آج بھی عوام کے لئے کھلے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے پیر کے روز جوڈیشل کمپلیکس شاہ منصور (صوابی) میں واقع بار روم میں وکلاء کی ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نسیم ولی خان نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اے این پی سمیت دیگر جماعتوں نے جو 32نکاتی مطالبات پیش کئے تھے اس میں ان جماعتوں کا مطالبہ نظام مصطفی یا شریعت کے نفاذ کا نہیں تھا بلکہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ملک میں جمہوری نظام اور غصب شدہ حقوق کی بحالی کا مطالبہ شامل تھا جبکہ ان جماعتوں کی قیادت مولانا مفتی محمود مرحوم کر رہے تھے احتجاجی جلسوں میں مولانا شاہ احمد نورانی کے کارکن نظام مصطفی کے نعرے لگا رہے تھے اور ہم جمہوریت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھٹو نے ولی خان کو تحریک کے دوران جیل میں ڈالا اس غیرت سے میں سیاست کے میدان میں نکل آئی اگر چہ بعض لوگوں نے میری مخالفت بھی کی اور اب بھی لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ آپ عمر کے اس آخری حصے میں کیوں سیاسی میدان میں نکل گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں 78سال کی عمر میں مجبور ہو کر نکلی ہوں میرے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا اس لئے گھر میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتی میرے خلاف سینیٹر زاہد خان کے گھر سٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا جبکہ سیاسی میدان سے مکمل طور پر آوٹ کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ باچا خان اور ولی خان کی سو سالہ سیاسی تحریک اور جدوجہد کو ٹکڑے ٹکڑے کر نا نہیں چاہتی بلکہ اب وہ کر دار ادا کر رہی ہو کہ اس تحریک کو آگ نہ لگ سکے۔ اے این پی کی قیادت نے ملازمتیں فروخت کیں، کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیئے، ملائشیا، دبئی اور لندن میں مارکیٹیں اور جائیدادیں بنائیں۔ اسفند یار ولی خان نے افراسیاب خٹک کے ہمراہ امریکہ جا کر پینٹاگون میں ڈالروں کے عوض پختونوں کے سروں کا سودا کیا آج کراچی میں پختونوں کا بے تحاشا قتل عام ہو رہا ہے۔