غریب بھوکے، ننگے، دودھ روٹی، دوائی، ڈاکٹر، علاج آکسیجن (ہسپتال) کو ترستے بچے اور ان کی مائیں --- خشک سالی، قحط، فصلوں، چارہ، گندم، سبزی، دودھ ہر انسانی ضرورت سے محرومی --- یہ منظرنامہ ہے بے بس، لاچار، ہاری، مزدور، گلہ بان کا --- جو موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ، وزیر سماجی بہبود، وزیر زکوٰۃ، وزیر صحت اور کئی ایسے ہی ’’مشیرانِ دربار‘‘ سب بے شرمی سے دم توڑتی سسکتی، بلکتی نیم مُردہ بچیوں اور بچوں کے علاوہ بوڑھے ہڈیوں کے ڈھانچے مرد و خواتین کو جاگیر دارانہ تکبر سے کوئی اہمیت نہ دے پائے۔ صنعتوں، جاگیروں، حکومتی خزانوں (100 ارب) کے مالک دو اضلاع کے 200 کلو میٹر کے اندر بسنے والے ’’کیڑے مکوڑے ہاریوں‘‘ اور معصوم بچوں کو گندم، دودھ، دال سبزی، گھی اور جانوروں کیلئے چارہ فراہم نہ کر سکے۔ شرمناک خبر یہ ہے کہ سندھ کے حکمران جب قحط زدہ روٹی دودھ کے محتاج ’’کمی‘‘ عوام کیلئے ’’جائزہ مشن‘‘ لے کر تھرپارکر اور دیگر تحصیلوں کے ہسپتالوں، گائوں، ڈپٹی کمشنر آفس وغیرہ میں گئے تو اُن کیلئے جو کھانے پیش کئے گئے وہ مچھلی، بریانی، تکہ کباب اور کئی دیگر لوازمات پر مبنی تھے۔ حکمران گئے تو یہ دیکھنے تھے کہ کتنے بچے، بوڑھے بھوک سے مر گئے لیکن دم توڑتے، بے بس آنکھوں اور موت کے سائے میں جیتے مایوس بچوں اور عورتوں کو ملنے کے بعد بھی لذیذ اعلیٰ درجہ کے کھانے ’’نگلنے‘‘ میں بے شرمی کی حد پار کر کے، لگاتا کھاتے رہے۔ ایسے جاگیر داروں، حکمرانوں پر قوم چار حرف بھیجتی ہے جو موت کے منہ میں جاتے غریب ہاریوں کو گندم، دودھ، پیاز، سبزی، دال اچار، پانی نہ دے سکے۔ بے شرمی کہاں ختم ہوتی ہے اور بے غیرتی کہاں سے شروع ہوتی ہے اس کا فیصلہ عوام کر لیتے ہیں بے شرمی کی انتہا یہ کہ چار دن کے اندر قریبی سرکاری گوداموں چُھور، تھرپارکر، نگر پارکر، مِٹھی کے شہروں اور قریبی اضلاع سے گندم کی ہزاروں بوریاں تقسیم نہیں کی جا سکیں۔ ایک گندم سے تمام بنیادی صحت کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ خشک دودھ، گھی، سبزیاں اور گوشت بھی لازم ہے۔ کیا سندھ حکومت کے پاس خشک یا ڈبے کا دودھ نہیں ہے مارکیٹ سے خرید لیتے! فوجی ادارے (خوراک بنانے کا ایک چھوٹا کارخانہ) سے سارا دودھ منگوا لیتے، ملٹی نیشنل سے دودھ کے ڈبے لے لیتے؟ حیدر آباد کی منڈی سے خشک دودھ کئی ٹرک مل سکتا ہے، دیگر شہروں سے پہنچانے کا انتظام کرتے؟ نہ روٹی نہ پانی نہ دودھ؟ جو حکمران ان علاقوں کے غریب بچوں عورتوں کو یہ بھی وافر نہ فراہم کر سکیں انہیں گھر چلے جانا چاہئے۔ 150 یا زیادہ بچوں کی ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیں جبکہ حکومت سندھ کے پاس اربوں کے فنڈز میں جو وہ ایک ایک میگا منصوبے پر بے دریغ خرچ کر رہے ہیں ابھی کم از کم کئی کروڑ روپے ’’میلے ٹھیلے سندھ فیسٹیول‘‘ پر لُٹا دئیے گئے جہاں ناچ گانے کے علاوہ کوئی خاص مشن دکھائی نہ دیا؟ بلاول بھٹو زرداری نے کیوں قحط زدہ عوام تک یہ تمام فنڈز منتقل نہیں کئے؟ صرف غریبوں سے ووٹ لینے کیلئے انہیں بیوقوف بنا کر اپنا اُلو سیدھا کرنا ہی ’’مشق‘‘ ہے؟ ووٹ لینے کے بعد یہ بے حسی اور بے شرمی کی حدوں تک جاتی غفلت، لاپروائی؟ وزیر اعلیٰ متعلقہ وزیر خوراک، صحت، زکوٰۃ، سوشل ویلفیئر کو خود استعفے دے دینے چاہئیں۔ بڑے لیڈروں میں ’’ایک باری تمہاری، اگلی باری ہماری‘‘ کا خفیہ معاہدہ نہ ہوتا تو امن و امان میں سب سے اعلیٰ درجہ کی ناکامی پر آئین کے آرٹیکل کے تحت گورنر راج کب کا نافذ ہو چکا ہوتا۔
ثبوت یہ کیا کم ہے کہ بُری طرز حکمرانی، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے کراچی میں امن و امان کے قیام کے تفصیلی فیصلوں سے انحراف، کرپشن کلچر، رشوت، سفارش، میرٹ کا قتل، اقربا پروری، اربوں کے کمشن، ٹیکس چوری، قومی بینکوں کے قرضوں کی سیاسی دبائو پر معافی، قومی خزانے پر ڈاکے، نوکریوں، ٹھیکوں کی ’’نیلامی‘‘ اور بولی کیا کیا نہیں کیا گیا؟ یہ بے شرمی ہی کے تو ثبوت ہیں نہ جانے بے غیرتی میں کتنی کسر رہ گئی شاید وہ حد بھی پار ہونے کے قریب ہے۔ مرتے دم توڑتے ہڈیوں کی زندہ نعشیں؟ یہ سب بے حسی، بے شرمی، بے غیرتی کے نادر نمونے ہیں۔ جب چار ماہ پہلے قومی اداروں نے آگاہ کر دیا تھا کہ قحط ہزاروں خاندانوں پر نازل ہونے کا 100 فیصد امکان ہے تو ساری ریاستی مشینری نے بروقت اقدامات کیوں نہیں کئے؟ گریڈ 19 اور 20 کے فرعون نما اور بعض کرپٹ افسران صرف معطلی کی سزا کے حقدار ہیں یہ جو ہر روز 5 تا 10 اموات ہو رہی ہیں اور 150 ہلاک شدگان کی لمبی فہرست یہ قتل کیا حکمرانوں اور افسران کی وجہ سے نہیں ہوئے؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024