جب میر محراب رند نے یہ میلز پڑھیں تو اسکا جواب تھا: ”اب ہمیں یقین ہے کہ آپ ہمارا بوجھ اتارنا چاہتے ہیں۔ آپ ان محب وطن پاکستانیوں کو بتا دیں کہ ہم آپ کے غلام نہیں کہ آپ ہماری بات بھی برداشت نہ کریں۔ آئندہ آپ کو پاسپورٹ لیکر بلوچستان آنا پڑیگا“ ایسے سیلف سٹائلڈ محب وطن لوگ ہی حالات خراب کرتے ہیں۔
ہماری دوسری بڑی غلطی وہاں سرداری نظام کو جاری رہنے دینا تھا۔ سردار وہاں کے بادشاہ ہوتے ہیں اور یہ بادشاہت اس وقت تک قائم ہے جب تک انکے قبیلے کے لوگ ان پڑھ ہیں ۔جاہل ہیں۔ بے روز گار ہیں اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ 1948 سے لیکر آج تک تقریباً ہر حکومت نے ترقیاتی کام کرانے کی کوشش ضرور کی لیکن سب سرداروں کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئیں۔ سرداروں نے ترقیاتی کام کے فوائد عوام تک پہنچانے ہی نہ دئیے۔ سرداروں کی طرف سے شدید رد عمل کے خوف سے حکمرانوں نے سرداروں کو خوش کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ ان سرداروں کو ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں۔ اربوں روپے دئیے گئے جن میں سے کچھ بھی عوام تک نہ پہنچا۔ مثلاً آج کی بلوچستان اسمبلی پر ہی نظر ڈالیں۔یہ سب سرداروں کا ٹولہ ہے۔ سب وزیر یا مشیر ہیں۔ سب کو 28 کروڑ روپے سالانہ ترقیاتی کاموں کے نام پر دئیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر علاقے میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہماری بے حسی یا بے مائیگی دیکھیں کہ پانچ خواتین کو زندہ دفن کرنے والا سردار بھی سینیٹر ہے۔ کروڑوں کے حساب سے ملکی خزانے سے وصول کرتا ہے۔ پھر بھی پاکستان کےخلاف بولتا ہے اور ہمارے حکمران اسکی منتیں ترلے کرکے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت اسے گلے لگاتی ہے۔
ہماری تیسری بڑی غلطی یہ ہے کہ بلوچوں کی طرف سے کئے گئے مظالم نہ تو عوام کے سامنے لائے گئے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی میڈیا میں۔ صرف بلوچوں کے مظالم پر بات ہوتی ہے اور وہ بھی جو سردار چاہتے ہیں۔ ایک ٹی وی خبر کےمطابق اب تک 15سو غیربلوچ اورلگ بھگ 9 سو سیکورٹی اہلکار مارے جاچکے ہیں جن میں آفیسرز‘ جوان‘ پروفیسرز‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘تاجر زائرین اور ہزارہ قبیلہ کے لوگ شامل ہیں جو صدیوں سے بلوچستان ہی کے باسی ہیں۔لوگوں کو بسوں سے اتار اتار کر مارا گیا۔ بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر، پرنسپل کیڈٹ کالج مستونگ اور یونیورسٹی کے پروفیسرز حضرات تک کو نہ بخشا گیا۔ مرنے والوں میں بوڑھے ۔ بچے۔ مرد اور عورتیں شامل تھے۔ یہ تمام قتل کیوں نہیں عوام اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے لائے جاتے؟ وہ غیر ملکی سینیٹرز جو بلوچ عوام کی مظلومیت کارونا روتے ہیں وہ باقی بے گناہ افراد کی اموات کے متعلق کیوںخاموش ہیں؟ مشرقی پاکستان میں جب مظالم ہوئے تو یہاں کوئی نہ بولا اور آج جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے حکومت پھر خاموش ہے۔آخر حکومت کس سانحہ کا انتظار کر رہی ہے؟
ہماری چوتھی بڑی غلطی سیکورٹی ایجنسی کی خاموشی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں یوں آدمی اغوا کرکے نہیں مارتیں نہ ہی یہ مسئلہ حل کرنے کا طریقہ ہے۔ آرمی چیف بھی بار ہا بیان دے چکے ہیں کہ فوج وہاں کوئی آپریشن نہیں کر رہی تو پھر یہ سب کچھ کون کر رہا ہے؟ وہاں ہر مصیبت کی ذمہ دار فوج ٹھہرائی جاتی ہے۔ ہر الزام فوج پرتھوپا جاتا ہے تو پھر فوج اپنے کردار کی صفائی کیوں نہیں دیتی؟
ہماری پانچویں بڑی غلطی بے مقصد اور منافقانہ بیانات ہیں۔ حکومت زور شور سے گلہ پھاڑ کر بیان دیتی ہے کہ بلوچستان میں بیرونی طاقتوں کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔ شرم الشیخ (مصر)میں بھی ہمارے وزیراعظم من موہن سنگھ کے سامنے ایسی بات کر چکے ہیں۔ تو پھر کہاں ہیں یہ ثبوت؟ حکومت یہ ثبوت کس سے پوشیدہ رکھ رہی ہے؟ کس کی پردہ داری مقصود ہے؟ کیوں اپنے عوام پر اعتماد نہیں کرتی؟کیوں دنیا کو نہیں بتاتی؟ اب بلوچوں سے معافی مانگنے ۔ پاﺅں پکڑنے جیسے بیانات محض ڈھونگ اور منافقت ہے۔ بلوچ عوام کےلئے صرف خالی وعدے ہی رہ جائینگے جن کی پہلے بھی کمی نہیں ہے۔ ہمیں حالات نہیں ہماری اپنی حکومت مار رہی ہے۔ (ختم شد)
ہماری دوسری بڑی غلطی وہاں سرداری نظام کو جاری رہنے دینا تھا۔ سردار وہاں کے بادشاہ ہوتے ہیں اور یہ بادشاہت اس وقت تک قائم ہے جب تک انکے قبیلے کے لوگ ان پڑھ ہیں ۔جاہل ہیں۔ بے روز گار ہیں اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ 1948 سے لیکر آج تک تقریباً ہر حکومت نے ترقیاتی کام کرانے کی کوشش ضرور کی لیکن سب سرداروں کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئیں۔ سرداروں نے ترقیاتی کام کے فوائد عوام تک پہنچانے ہی نہ دئیے۔ سرداروں کی طرف سے شدید رد عمل کے خوف سے حکمرانوں نے سرداروں کو خوش کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ ان سرداروں کو ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں۔ اربوں روپے دئیے گئے جن میں سے کچھ بھی عوام تک نہ پہنچا۔ مثلاً آج کی بلوچستان اسمبلی پر ہی نظر ڈالیں۔یہ سب سرداروں کا ٹولہ ہے۔ سب وزیر یا مشیر ہیں۔ سب کو 28 کروڑ روپے سالانہ ترقیاتی کاموں کے نام پر دئیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر علاقے میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہماری بے حسی یا بے مائیگی دیکھیں کہ پانچ خواتین کو زندہ دفن کرنے والا سردار بھی سینیٹر ہے۔ کروڑوں کے حساب سے ملکی خزانے سے وصول کرتا ہے۔ پھر بھی پاکستان کےخلاف بولتا ہے اور ہمارے حکمران اسکی منتیں ترلے کرکے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت اسے گلے لگاتی ہے۔
ہماری تیسری بڑی غلطی یہ ہے کہ بلوچوں کی طرف سے کئے گئے مظالم نہ تو عوام کے سامنے لائے گئے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی میڈیا میں۔ صرف بلوچوں کے مظالم پر بات ہوتی ہے اور وہ بھی جو سردار چاہتے ہیں۔ ایک ٹی وی خبر کےمطابق اب تک 15سو غیربلوچ اورلگ بھگ 9 سو سیکورٹی اہلکار مارے جاچکے ہیں جن میں آفیسرز‘ جوان‘ پروفیسرز‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘تاجر زائرین اور ہزارہ قبیلہ کے لوگ شامل ہیں جو صدیوں سے بلوچستان ہی کے باسی ہیں۔لوگوں کو بسوں سے اتار اتار کر مارا گیا۔ بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر، پرنسپل کیڈٹ کالج مستونگ اور یونیورسٹی کے پروفیسرز حضرات تک کو نہ بخشا گیا۔ مرنے والوں میں بوڑھے ۔ بچے۔ مرد اور عورتیں شامل تھے۔ یہ تمام قتل کیوں نہیں عوام اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے لائے جاتے؟ وہ غیر ملکی سینیٹرز جو بلوچ عوام کی مظلومیت کارونا روتے ہیں وہ باقی بے گناہ افراد کی اموات کے متعلق کیوںخاموش ہیں؟ مشرقی پاکستان میں جب مظالم ہوئے تو یہاں کوئی نہ بولا اور آج جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے حکومت پھر خاموش ہے۔آخر حکومت کس سانحہ کا انتظار کر رہی ہے؟
ہماری چوتھی بڑی غلطی سیکورٹی ایجنسی کی خاموشی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں یوں آدمی اغوا کرکے نہیں مارتیں نہ ہی یہ مسئلہ حل کرنے کا طریقہ ہے۔ آرمی چیف بھی بار ہا بیان دے چکے ہیں کہ فوج وہاں کوئی آپریشن نہیں کر رہی تو پھر یہ سب کچھ کون کر رہا ہے؟ وہاں ہر مصیبت کی ذمہ دار فوج ٹھہرائی جاتی ہے۔ ہر الزام فوج پرتھوپا جاتا ہے تو پھر فوج اپنے کردار کی صفائی کیوں نہیں دیتی؟
ہماری پانچویں بڑی غلطی بے مقصد اور منافقانہ بیانات ہیں۔ حکومت زور شور سے گلہ پھاڑ کر بیان دیتی ہے کہ بلوچستان میں بیرونی طاقتوں کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔ شرم الشیخ (مصر)میں بھی ہمارے وزیراعظم من موہن سنگھ کے سامنے ایسی بات کر چکے ہیں۔ تو پھر کہاں ہیں یہ ثبوت؟ حکومت یہ ثبوت کس سے پوشیدہ رکھ رہی ہے؟ کس کی پردہ داری مقصود ہے؟ کیوں اپنے عوام پر اعتماد نہیں کرتی؟کیوں دنیا کو نہیں بتاتی؟ اب بلوچوں سے معافی مانگنے ۔ پاﺅں پکڑنے جیسے بیانات محض ڈھونگ اور منافقت ہے۔ بلوچ عوام کےلئے صرف خالی وعدے ہی رہ جائینگے جن کی پہلے بھی کمی نہیں ہے۔ ہمیں حالات نہیں ہماری اپنی حکومت مار رہی ہے۔ (ختم شد)