جمہوریت کے شہید اول ڈاکٹر نذیر احمد
ڈاکٹر نذیر احمد شہید13فروری 1929ء کو ضلع جالندھر (انڈیا) کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے پیدائش کے چند سال بعد ڈاکٹر نذیر احمد کے والدنے انہیں فاضل پور ضلع ڈیرہ غازیخان بلالیا یہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی راجن پور ہائی سکول سے میٹرک کیا بعد میں ملتان ایمرسن کالج سے ایف اے 1944 میں کیا اس تعلیم کے بعد انہوں نے ہومیو پیتھک کی تعلیم حاصل کی ذریعہ معاش کے لئے طب کو مستقل پیشہ بنایا ملتان میں ڈاکٹر عبدالجبار شاکر‘مولانا خان محمد ربانی(مرحوم) سے تعلق کی بناء پر سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کتابوں اور تقریروں سے متاثر ہوئے۔ تعلیم کو خیر باد کہہ کر اسلامی انقلاب کی خاطر اپنی ساری زندگی وقف کر دی مال و دولت عیش و عشرت کی زندگی کو ٹھکرا کر مجاہدلنہ اور خودداری کی زندگی کو ترجیح دی ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے جس راستے پر چلنے کا انتخاب کیا یہ راستہ کٹھن اور خار دار اور پر خطر ضرور تھا مگر یہ اس منزل کی نشاندہی کرتا تھا جس سے انبیا ء کرام گزرے ہیں۔ 1947میں قیام پاکستان کے بعد اپنے مرشد سید مودودی کی ہدایت پر ڈیرہ غازیخان کو مسکن بنایا اور یہاں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ ضلع ڈیرہ غازیخان معاشی نقطہ نظر سے ملک کا پسماندہ ترین ضلع ہے یہاں سیاست پر ہمیشہ جاگیر داروں‘تمن داروں اور وڈیروں کی اجارہ داری رہی ہے جاگیرداروں اور تمن داروں وڈیروں کا اثر رسوخ بذریعہ پولیس پٹواری بڑا مضبوط ہے یہاں تحریک اسلامی کا کام بڑا مشکل اور کٹھن تھا آج بھی دینی قوتوں کو جنوبی پنجاب اور سندھ کے جاگیرداروں کے علاقوں میں مزاحمت کا سامنا ہے مگر ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے دن رات مسلسل محنت کی اور چند سالوں میں جماعت اسلامی کو منظم کیا اس کی دعوت کو قریہ قریہ بستی بستی پہنچایا ڈاکٹر صاحب کے قریبی دوست مولانا عبداللطیف بتاتے ہیں جب سید مودودی نے ایک مرتبہ ارکان کو خط لکھا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں پھیل جائیں عوام کو بتائیں کہ مخلوق اللہ کی ہے زمین اللہ کی ہے اس پر قانون بھی اللہ کا ہونا چاہئے ڈاکٹر نذیر احمد شہید کا اضطراب دیدنی تھا وہ راتوں کو بہت کم سوتے رات کا بیشتر حصہ اللہ کے حضور حاضر رہتے دن کو عوام الناس کی ذہنی فکری تربیت کے لئے مصروف عمل رہتے شہادت تک ڈاکٹر صاحب کا یہی معمول رہا۔
1958ء میں جب مارشل لا لگا اور جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی تو ڈاکٹر نذیر احمد نے اپنے مشن کو جاری رکھا کارکنان سے مسلسل رابطے میں رہے اور اس میں ذرا بھی کمی نہ آنے دی مارشل لاء کے خاتمے پر جماعت اسلامی میدان میں موجود بلکہ اس کا کام پہلے سے بھی زیادہ ہو گیا تھا۔1970ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے بھر پور حصہ لیا۔ ڈیرہ غازیخان کی نشست این ڈبلیو88(جو اس وقت دو اضلاع اور پانچ قومی اسمبلی کی سیٹوں پر مشتمل ہے) کے لئے ڈاکٹر نذیر احمد شہید کا نام منظور کیا گیا ڈاکٹر صاحب کے مقابلے میں خواجہ قطب الدین گدی نشین تونسہ شریف مولانا عبدالستار تونسوی‘ نواب زادہ محمد خان لغاری‘ (فاروق لغاری کے والد ) پیپلز پارٹی کے منظور لُنڈ الیکشن لڑرہے تھے جاگیرداروں‘ وڈیروں اور پیروں کے مقابلے میں الیکشن لڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا ڈاکٹر نذیر احمد شہید کی 23سال کی محنت رنگ لائی عوام سے مسلسل رابطہ نے انہیں الیکشن میں کامیاب کرایا جاگیرداروں کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں ڈاکٹر نذیر احمد کو الیکشن جیتنے کی حقیقی خوشی نہ ہوئی کیونکہ ان کی پارٹی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں الیکشن ہار گئی تھی علاقائی اور لسانی جماعتیں کامیاب قرار پائیں۔ڈاکٹر نذیر احمد کو سید مودودی نے ہدایات دیں کہ وہ مشرقی پاکستان کا دورہ کریں کیونکہ علاقائی قیادتوں نے آپس میں اقتدار کی جنگ شروع کر دی تھی ملک کی سلامتی خطرے میں تھی اقتدار کی جنگ ملک کی تباہی کا سبب بن رہی تھی ڈاکٹر نذیر احمد 4جولائی 1971ء کو ڈھاکہ پہنچے اگست تک انہوں نے ڈھاکہ ‘ چٹاگانگ‘ مومن شاہی‘ سلسٹ‘ جے پور‘ یوگرا‘ رنگ پور‘ دنیا پور اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں جلسوں سے خطاب کیا علاقائی لیڈروں کے خطر ناک عزائم سے عوام کو آگاہ کیا اور اس دوران بھارتی ریڈیوآپ کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہا اور ڈاکٹر صاحب کو خطر ناک بنیاد پرست کہا ڈاکٹر نذیر احمد نے اپنے خطبات میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ صحیح ثابت ہوئے اور پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا غیر کی سازشیں کامیاب ہو گئیں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جماعت اسلامی نے انہیں مغربی پاکستان کا دورہ کرنے کا کہا ڈاکٹر صاحب راولپنڈی‘ کراچی‘ لاہور‘ ملتان‘ سرگودھا‘ مظفر گڑھ‘ راجن پور‘ سیالکوٹ‘ ڈسکہ‘ کوٹ ادو‘ فیصل آباد کے علاوہ درجنوں بڑے شہروں میں جلسوں سے خطاب کیا پوری قوم کو آگاہ کیا کہ پاکستان توڑنے کے ذمہ دار کون ہیں اور جماعت اسلامی کا کیا کردار ہے ملک کے اندر سکوت طاری تھا جاگیر دار وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو کے گرد جمع تھے ان کا اقتدار عروج پر تھا ان کی پارٹی کو روٹی کپڑا مکان کے نعرے پر پذیرائی ملی تھی ڈاکٹر نذیر احمد نے اپنی ولولہ انگیز تقریروں میں صدر یحییٰ ذوالفقار علی بھٹو‘ شیخ مجیب الرحمن کی ملی بھگت کہ ادھر تم ادھر ہم کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور عوامی مارشل لاء مردہ باد اور نامنظور کا نعرہ لگایا رائے عامہ کو ہموار کیا جمہوریت کے چیمپئنوں کو للکارا مغربی پاکستان کا یہی دورہ ان کی شہادت کا باعث بنا۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی مفاہمت سے خالی تھی وہ ہمیشہ حق کی بات ببانگ دہل کہتے 8جون 1972کو اپنے کلینک پر بیٹھے تھے کہ کرائے کے قاتلوں نے انہیں شہید کر دیا جمہوریت کے علمبرداروں نے انہیں اپنے راستے سے ہٹایا اور خود بھی وسوسوں کا شکار ہو گئے ڈاکٹر نذیر احمد نے ملک توڑنے والوں پر تنقید کی تھی ان کی سازشوں کو بے نقاب کیا تھا مرحوم کی برسی گزشتہ روز منائی گئی۔