آج کا بجٹ اور میری رجائیت پسندی
پی ٹی آئی حکومت کا تیسرا بجٹ تو آج گیارہ جون کو قومی اسمبلی میں پیش ہو رہا ہے مگر میرا دل تو اس سے پہلے ہی حکومتی کارکردگی کے معاملہ میں رجائیت پسندی کا شاہکار بن گیا ہے۔ ارے! قومی خزانہ ’’نکّونک‘‘ بھر چکا ہے‘ سالانہ گروتھ ریٹ جستیں بھرتا ہوا یکایک چار فیصد تک جا پہنچا ہے۔ رواں مال سال کے اختتام تک گروتھ ریٹ کی شرح چار عشاریہ 9 فیصد تک جا پہنچنے کا قوی امکان ہے۔ ایف بی آر نے کمال کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیکسوں کی مد میں وصولیوں کا ہدف پار کرلیا ہے جو سابقین کے کبھی وہم و گمان میں بھی نہ ہوتا تھا۔ بجٹ کے بعد مہنگائی میں کمی کا مژدۂ جانفزا شوکت ترین صاحب اسی طرح پہلے ہی سنا چکے ہیں جیسے انہوں نے بجٹ کو آئی ایم ایف کی شرائط سے آزاد کرنے کی خوشخبری سنائی تھی اور یہ کہہ کر قوم کے ایک مؤثر طبقے کو خوش کردیا تھا کہ ہم نے تنخواہ دار طبقہ پر مزید ٹیکس لگانے کی آئی ایم ایف کی تجویز کو ٹھوکر مار دی ہے۔ بے شک اس دل خوش کن بیان کے بعد پنشنرز حضرات کی کمبختی آگئی جن کی پنشن میں سے ساڑھے سات فیصد انکم ٹیکس کی کٹوتی آج آنیوالے بجٹ کے ذریعے قانونی شکل اختیار کررہی ہے جس سے پنشن میں دس فیصد اضافہ کے بعد ساڑھے سات فیصد کی کٹوتی کرنا ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے چھین لینے کے مترادف ہے مگر بھائی صاحب! پنشنر حضرات اب کون سا مفید طبقہ ہے سو انہیں قبر میں پہنچا کر انہیں اصل سکون پہنچانے کا ہی بندوبست ہونا چاہیے۔ یہ کاز آئی ایم ایف کی کوئی شرط مان کر لاگو کرنے سے پورا ہوتا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ عوام الناس کی تو آج کے بجٹ سے بہت ڈھارس بندھی ہوئی ہے کیونکہ ایف بی آر نے ریکارڈ وصولیاں کی ہیں اور بڑھتی ہوئی شرح نمو قومی معیشت کے استحکام پر مہرتصدیق ثبت کررہی ہے تو اس کا تنخواہ دار طبقہ سمیت عوام الناس کو ہی براہ راست فائدہ پہنچانے کا وقت آگیا ہے۔ سو میری رجائیت پسندی کے مطابق آج کے بجٹ میں راندۂ درگاہ عوام الناس کیلئے خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہوں گی۔ سیلریڈ کلاس کو تنخواہوں میں 25, 20 فیصد اضافے والا ریلیف تو نوشتۂ دیوار ہے۔ وزیراعظم عمران خان بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے کی خوشخبری پہلے ہی سنا چکے ہیں اور آج کے بجٹ میں عوام اپنے لئے اور بھی در کھلتے ہوئے دیکھنے کے متمنی ہیں۔ شاید آج ’’جوبولے سو نہال‘‘ والا منظر ہی بن جائے۔
مگر رجائیت پسندی میں ڈوبے میرے دل کو اب یکایک انجانے سے خوف نے بھی گھیر لیا ہے۔ ہماری گزشتہ رات اور دن کا ایک حصہ انتہائی کرب میں گزرا۔ رات کے پچھلے پہر بجلی اچانک غائب ہو گئی۔ چونکہ حکومتی اکابرین کی جانب سے ریلوے حادثات‘ بے قابو ہونے والی مہنگائی اور اسی طرح کی دوسری ہر خرابی کا ملبہ تواتر کے ساتھ سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر قوم کو خاطر جمع رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے اس لئے سخت گرمی اور حبس کے موسم میں بجلی کے غائب ہونے کی علت بھی مجھے سابق حکمرانوں کی ہی اختیار کردہ نظر آئی اور یہ سوچ کر دل مطمئن ہو گیا کہ سابقین کی مسلط کردہ خرابیوں سے عوام کو نجات دلانا ہی تو پی ٹی آئی حکومت کا عزم ہے اس لئے وہ بجلی کے اچانک بریک ڈائون پر غافل تو نہیں ہوگی‘ مگر بجلی کی بندش کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ پسینے میں شرابور جیسے تیسے تیاری کی اور بجلی کے مسلسل بندش کا کرب لئے آفس آگیا۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ بجلی کی بندش کے کرب میں تو پورے لاہور کی آبادی ڈوبی ہوئی ہے۔ پھر لاہور سے باہر کی خبریں آنا شروع ہوئیں اور یوں محسوس ہوا جیسے ملک کا ہر شہری یہ کرب بھگت رہا ہے۔ اتنے طویل دورانیے کی بندش میں تو جنریٹر بھی جواب دے جاتے ہیں۔ یوپی ایس کی بولتی بھی بند ہوجاتی ہے اور سولر انرجی بھی آنکھ مچولی کا کھیل شروع کر دیتی ہے۔ حکومتی ذرائع سے اطلاع ملی بجلی کا شارٹ فال پانچ ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرگیا ہے۔ اگرچہ میرے کولیگ فضل اعوان صاحب بھی اپنی اس رجائیت پسندی پر مطمئن نظر آرہے تھے کہ بس چند روز کی بات ہے تربیلا ڈیم میں جمی سلٹ کی صفائی ہو رہی ہے پھر وافر پانی اور وافر بجلی۔
میں بذات خود تو اس رجائیت پسندی پر صاد کرلوں مگر آگے گرمی کی حدت اور دم گھٹنے کا منظر بنانے والے حبس کے موسم میں اضافی بجلی پیدا کرنے کے کوئی اسباب نہ بنائے گئے تو آج کا پانچ ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال بڑھتے بڑھتے عوام کو پتھر کے زمانے کی جانب واپس لوٹا سکتا ہے۔ پھر ہماری رجائیت پسندی تو کہیں نکرے لگی دہی کے ساتھ کلچہ کھانے کے بھی قابل نہیں رہے گی۔ بجلی کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ کے اس کرب کے ساتھ آج کے بجٹ کا عوام نہ جانے کتنی بڑی توقعات کے ساتھ مشاہدہ کرینگے اور انہیں اپنی زندگی میں کسی ریلیف کیلئے کوئی بھی توقع پوری ہوتی نظر نہ آئی تو قہر کے موسم میں انکے دماغ کے گرم ہوتے پارے کا حضور پھرخود ہی اندازہ لگالیں۔ ایک معروف ٹک ٹاکر علامہ ناصر مدنی کا ایک مختصر سا کلپ ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے جس میں وہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہمارا قومی خزانہ بھی بھرا ہوا ہے‘ہمارے کھیت بھی سبزیاں اناج خوب اگا رہے ہیں اور اقتدار کی مسند پر بیٹھے ہوئے ہمارے حکمران بھی دیانتدار ہیں‘ پھر یہ ہانڈی کون ’’؟؟؟‘‘ چاٹ گیا ہے۔
اگر آج کے بجٹ کے بعد یہ سوال ہر شہری کی زبان پر چڑھ گیا تو میری رجائیت پسندی کا تو خانہ ہی خراب ہو جائیگا۔ پھر میں کیوں نہ نیویں نیویں ہو کر پتلی گلی سے نکل جانے کی پریکٹس کرلوں۔ میرا یہ مشورہ اقتدار کی راہداریوں میں مٹرگشت کرنیوالے ان سارے رجائیت پسندوں کیلئے بھی ہے جنہوں نے قومی معیشت کی دل خوش کن تصویر دکھا کر عوام کی توقعات ساتویں آسمان تک پہنچا دی ہیں۔ بجٹ پہلے کی طرح وہی اعداد وشمار کا گورکھ دھندا ہی نظر آیا تو توقعات باندھے بیٹھے عوام کیا حشر اٹھائیں گے؟ حضور یہ آپ کے سوچنے کا مقام ہے۔ مجھے تو بس اپنی رجائیت پسندی کی چادر لپیٹنے کا ہی تردد کرنا ہے۔ عوام کو تو آپ کے پشاور کے ایم پی اے فضل الٰہی نے اپنے کتھارسس کا راستہ دکھا دیا ہے۔ سو لوڈشیڈنگ سے عاجز آتے ہوئے وہ بھی اپنے اپنے علاقے کے گرڈسٹیشن پر دھاوا بول کر بجلی کی بحالی کیلئے بٹن دباتے نظر آئیں گے۔ وماعلینا الالبلاغ
٭…٭…٭