" ریاست مدینہ کے تقاضے "
اپنے وطن میں مروجہ روایات ۔ اشرافیہ بالخصوص ’’این جی اوز‘‘ کی زیر گردش کہی ان کہی کہانیوں کے تناظر میں خیال تھا کہ مہمان شخصیت بڑی گاڑیوں کے کانوائے کی صورت میں تشریف لائے گی۔ اِسی تصور میں آنکھیں دوسری سمت منتظر تھیں کہ بالکل مخالف سمت سے اپنے معزز مہمانوں کو آتے دیکھا گو کہ پہلے بھی کئی مواقع پر ملاقات ہو چکی تھی پر اِس مرتبہ کھانے پر سادہ مزاج اپنائیت آمیز عاجزی کے پیکر عبدالرزاق ساجد بھائی ۔ پیاری باجی رضوانہ لطیف کے ساتھ کھانے پر باقاعدہ براہ راست ملاقات تھی۔ چھوٹے بیٹے رئیس اقبال۔ میاں صاحب ۔ تجمل گرمانی کے ساتھ گھنٹوں فلاحی پروجیکٹس پر بڑی مثبت گفتگو رہی۔
مخلوق ’’اللہ رحمن‘‘ کا کنبہ ہے۔ جو لوگ ’’اللہ رحیم‘‘ کے کنبے کا خیال رکھتے ۔ انھیں سنبھالنے ۔ پالنے میں مصروف عمل رہتے ہیں وہ بلاشبہ بے تحاشا تعریف کے مستحق ہیں۔ ’’اللہ کریم‘‘ کے پیارے حبیب ہمارے سوہنے نبی رحمت ﷺ نے ایسے لوگوں کو ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کا دوست قرار دیا ہے۔ ’’المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ ‘‘ بھی درد دل رکھنے والے افراداکا ایسا ادارہ ہے جو بلا تفریق رنگ ونسل ۔ مذہب ’’اللہ کریم‘‘ کی اُس مخلوق کی خدمت ‘ نگہداشت میں مصروف عمل ہے۔ جو بے بس۔ لاچار ہیں ۔ جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ علاج ۔ کھانا۔ پانی کا شافی انتظام کر سکیں ۔ مخلوق کی داد رسی ۔ تکالیف کے ازالہ کی کوشش ۔یہ کام اتنا آسان نہیں نہ ہی دُکھی جذبات ظاہر کرکے اِس دشوار گھاٹی سے گزرنا ممکن ہے۔ مختصراً ’’اللہ غفورالرحیم‘‘ کے منتخب ۔ چنیدہ بندے ہی اِس بارگراں کو اُٹھانے کی سکت رکھتے ہیں یہ سکت ۔ طاقت بھی ’’رب ذی شان‘‘ عطا فرماتے ہیں۔
المصطفیٰ ٹرسٹ اپنے چیئرمین کی قیادت میں درجنوں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کامیابی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ’’تجمل گرمانی‘‘ کے ساتھ ’’20 سالوں‘‘ سے رفاہی تعلق اتنا مضبوط ہو چکا کہ ’’چھوٹے بھائی‘‘ مانند سمجھتی ہوں ۔ کچھ سالوں سے جب سے ’’تجمل گرمانی‘‘ نے کنٹری ہیڈ کی ذمہ داری سنبھالی ہے ۔ادارے کی سرگرمیوں خدمات کا دائرہ وسیع پیمانے پرپھیل رہا ہے۔ مزنگ روڈ آئی ہسپتال اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ کہ آنکھوں کے معائنہ ۔ مرض کی تشخیص ۔ ادویات ۔ نظر کا چشمہ اور سفید موتیا کا آپریشن ۔ لینز ۔ فالواپ کی تمام تر سہولیات مکمل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ادارے کا بے حد خوبصورت عزم ہے۔ آنکھوں کی روشنی سب کیلئے ۔اور مشن ’’اللہ رحمن اور رسول مقبول محمد عربی خاتمہ النبین ﷺ ‘‘ کی خوشنودی ہے۔ اندھے پن کے مرض میں مایوسی کے اندھیرے ختم کرنا اِس منزل کا حصول بہت بڑی سعادت ۔ خوش بختی کی علامت ہے۔
یہ بڑی خوشی کی خبر ہے کہ ’’کامونکی ‘‘ میں آئی ہسپتال کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ مزیدبراں تھل ۔ تھرپارکر سمیت دیگر علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی اور تنصیب کے منصوبے بھی جاری ہیں۔ دو ماہ پہلے ’’جنت‘‘ کے دو معصوم فرشتے ’’محمد میثاق عبدالقیوم شہید اور فاطمہ رئیس شہیدہ‘‘ کے نام پر بننے والی لنگر گاہ کا افتتاح کیا۔ مخیر حضرات سے التماس ہے کہ ’’مفت کھانا سب کیلئے ‘‘ پروجیکٹ میں ٹرسٹ کا ساتھ دیں۔روٹی کپڑا مکان کی فراہمی یقینا ریاست کی کلیدی ذمہ داری ہے۔ خصوصاً جب سربراہ مملکت اعلان کر دے کہ ہم اپنے ملک کو ریاست مدینہ بنائیں گئے۔ 3سال گزر گئے پہلا اعلان سنے ہوئے اور اب تسلسل کے ساتھ دہرائی سُن رہے ہیں ۔ ہم دُعا ہی کر سکتے ہیں کہ ’’اللہ۔ رحمن۔رحیم۔کریم‘‘ ہم سب کو آنکھوں کی وہ روشنی عطا فرما دیں کہ ہم سب کا دکھ صرف محسوس نہ کریںبلکہ تکلیف ختم کرنے کی سعی کریں۔کبھی نہ پورے ہونیوالے وعدے کرنے کی بجائے عمل کی تصویر بنیں ۔ آمین۔
مہنگائی کو برداشت کرتی قوم مہنگائی میں کمی کی نوید سنتی ہے تو پٹرول ۔گیس ۔بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اب مہنگائی کیسے کم ہو ؟ قیمتوں میں اضافہ چند ’’پیسوں‘‘ کاہو یا ’’روپوں‘‘ کے حساب سے ہو۔ ہر دو صورت میں اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ احساسات عوامی خواہشات کا درد عیاں کرتے ہیں ۔ مگر ریلیف تو پورا دیں ۔ کچھ عرصہ کیلئے ’’فیول پرائس‘‘ کو منجمد کر دیں اگر مہنگائی روکنا مقصود ہے تو ۔ آٹا ۔ چینی ۔ دال کی قیمتوں میں اضافہ روکنے کے بھی کسی بھی اقدام سے گریز نہ کرنے کی ہدایت قابل قدر ہے۔ کوئی بھی قدم اُٹھانے کی ضرورت نہیں اگر متذکرہ بالا تجویز پر عمل کر لیں ۔ کریک ڈاؤن ۔ چھاپے ۔ نوٹس ۔ اُلٹ اثرات کاموجب بنتے ہیں۔ صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کو روک لیں ۔ مہنگائی کنٹرول ہو جائیگی۔ اِسی طرح قوانین کی پاسداری کو ممکن بنا دیں ۔ بلا امتیاز عدل ۔ انصاف۔ یکساں سلوک پر عمل درآمد یقینی بنا دیں۔ قانون سب کیلئے برابر۔ سب شہری یکساں سلوک کے حقدار ۔ جب ایسی سکون ۔ اطمینان بخش فضا بن جائیگی تو پھر کون ذخیرہ اندوزی کا سوچے گا اور کون ظلم ۔ زیادتی کا مرتکب ہونے کو آسان جانے گا۔جلسہ ۔ جلوس انتشار کی سیاست نہیں ۔ جمہوریت کا حصہ ہیں ۔ نہ ہی انتشار وہ ہے کہ کسی کو حقوق نہ ملیں تو وہ سڑکوں پر آجائے ۔ انتشار یہ ہے کہ حقدار کو ’’ریاست‘‘ اُس کا حق دلانے میں غفلت برتے ۔ اپنی ذِمہ داری سے کوتاہی کرے ۔ بھلائی ۔ خیر کی باتیں جہاں سے بھی آئیں ۔ کوئی بھی کرے۔ توجہ سے سنیں۔ ہر معاملہ کو سیاسی مخالفت کی نظر سے دیکھنا عقلمندی نہیں ۔ ہر دور میں۔ ہر ادارے میں ذاتی مفاد کے نام پر چند لوگوں کا گروپ ضرور موجود ہوتا ہے۔ وہ حکمران ۔ لیڈر ۔ عہدے دار ہمیشہ کامیاب رہے گا جس سنے سب کی اور مانے ’’اللہ رحمن رحیم کریم۔ رسولﷺ‘‘ کی کہ ’’مشاورت میں خیر ہے‘‘ ۔ اب بھلا کون اِس ’’فرمانِ مبارکہ‘‘ کی حکمت سے انکار کر سکتا ہے۔ اَسکے ماننے سے ملنے والی ’’برکات‘‘ سے کون محروم رہنا پسند کرے گا۔