کیڑے
کیڑے پڑ جانا صرف محاورہ نہیں بلکہ سہ معانی حقیقت ہے۔انسان کی زندگی کی آدھی تلخیاں اور مشکلیں ان کیڑوں کی وجہ سے ہیں۔انسان خواہ زندہ ہو یا مردہ۔ان کیڑوں کی دل چسپی کا شکار صرف وہی ہے۔وہ کسی بھی رستے اس تک پہنچ سکتے ہیں اور زندگی میں ہی انسان کو گھن لگانا اور کھانا شروع کر دیتے ہیں۔شکل و صورت اور جسامت میں یہ کیڑے بھلے مختلف ہوں لیکن ازل سے ان کا مطمح نظر واضح ہے۔غالب نے جس عشق کو دماغ کا خلل کہا ہے وہ اصل میں کیڑا ہی ہے۔ پہلے زمانے میں کیڑے پہچانے جاتے تھے ۔
آج انسان اتنا چھوٹا اور انسانیت اس قدر ارزاں ہو چکی ہے کہ پہچان میں تذبذب ہوتا ہے۔کسی چیز میں سڑ جانے کے سبب بھی کیڑے پیدا ہو کر نقص، عیب یا خرابی کا سبب بنتے ہیں۔ آج کل انسانیت میں درندگی کے کیڑے اس درجہ موجود ہیں کہ انسان کی طبع پر ناگوار بھی نہیں گزرتے۔ہمارے پاس تدبر کی ایسا کوئی مائیکرو سکوپ نہیں جس سے فلٹر کے دھاگوں کی پہچان ممکن ہو۔ بہر حال یہ کیڑے سبزی و پھل اور دیگر اشیائے خوردونوش میں ہوں یا دانتوں میں لگ جائیں کسی طور خوش گوار نہیں ہوتے بلکہ صریح خرابی کا موجب بنتے ہیں۔
یہ خرابی دماغ میں پیدا ہو جائے تو رنگینی افکار میں طرح طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں اور دل میں پیدا ہو جائیں تو دل کو صم بکم کر دیتے ہیں۔ بے حسی اور ظلمت سے بھر دیتے ہیں۔ضمیر جعفری نے کلبلاتی بستیوں میں دو چار آدمی کی بات کی ہے۔اس سے مراد یہی کیڑے ہیں جو تہذیب و معاشرت کو کھا گئے ہیں۔
یہ کیڑے ہر سائز اور ہر قسم کے ہوتے ہیں اور بے موسمی بٹیروں کی طرح ہر موسم اور ہر دور میں نظر آتے ہیں۔ اصناف سخن کے کیڑے ادب میں ایسی پراگندگی پھیلاتے ہیں جس میں ادب کا چہرہ دب جاتا ہے ایسے افراد کی اشعار اور تحریر دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اندر کے کیڑے کی کارستانی ہے۔ ٹک ٹاک بھی ایسے کیڑوں کے لیے بہت اچھی پناہ گاہ ہے۔جن لوگوں میں صلاحیت کے بنا ہی ایکٹنگ ، رقص اور پیروڈی کے کیڑے ہلچل مچائے رکھتے ہیں۔اب انھیں ایک پلیٹ فارم مل گیا ہے۔بے ہنگم ناچ کود ، سستے لطائف اور دوسروں کی صلاحیتوں پر اپنے اندر کے کیڑے کا سایہ کرنا ان کے لیے زندگی موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
یہ وہی خواہشات کے کیڑے ہیں جو انسان کو زندگی بھر بے سرو پا بھگائے پھرتے ہیں اور ایسے زاد راہ پر مجبور رکھتے ہیں جس کو ہاتھ لگانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔پہلے لوگوں کے بر خلاف آج لوگ زمین کا گز بننے کے بجائے زمین کے کیڑے بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہ کرگس اور شاہین والی بات ہے۔ جس طرح کتابوں کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور محنتی لوگ کتاب کے کیڑے کہلاتے ہیں۔ پرجیوی کیڑے تو جسم کے اندر رہتے ہیں اور پیٹ اور آنتوں میں سب کھانا جسم کو ہضم کرنے سے قبل ہی کھا جاتے ہیں۔ کئی ایسے کیڑے بھی ہیں جو دکھائی نہیں دیتے لیکن آنکھوں سے ان کا عکس چھلک رہا ہوتا ہے۔
حسد ،کینہ ،تعصب کے کیڑے چہرے کے عضلات بگاڑ دیتے ہیں۔ خوشامد کا کیڑا جسے چمٹ جائے وہ پورے کا پورا ہی بدل جاتا ہے۔اگر وہ اپنے الفاظ کا تاثر بٹھانے میں کامیاب ہو جائے تو یہ کیڑا مخالف سمت ٹرانسفر ہو جاتا ہے اور اس شخص کے حالات ہی بدل جاتے ہیں۔وہ قلندر اور ہوں گے جو حالات کے قدموں میں نہیں گرتے۔زمانہ حال کے قلندر ہر صاحب اقتدار کے قدموں میں گرتے ہیں اور چرب زبانی کے کیڑوں سے بظاہر ریشم اور حقیقتاً ظلمت کا ایسا جال بنتے ہیں جس میں غریب عوام کو ہڑپ کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ جس سے چھوٹنا ممکن نہیں رہتا۔ افلاطون نے تو کئی صدی پیشتر اس کا اشارہ دیا تھا۔ انسانی نشوونما میں کمی پرجیوی کیڑوں کی بدولت ہے۔لیکن ملکی ترقی و خوش حالی میں کیڑے پڑ جائیں تو کوئی دوا کارگر نہیں ہوتی۔ صاحبان اقتدار میں ایسے بہت سے کیڑے بھی شامل ہیں جو رینگتے رینگتے سانپ بن چکے ہیں۔اب لوگ ان سے خوف کھاتے ہیں۔ایسے سانپوں کا زہر ہر شعبہ میں بوتلیں بھر بھر انڈیلا جاتا ہے۔اور قیمتی دوائیوں کی طرح تریاق کی shortage ہے۔ امداد کے نام پر کرونا ویکسین شاید ڈرم بھر بھر کر مل رہی ہے اور ان لوگوں کے لیے بھی میسر ہے جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی۔۔یہ کیڑے جہاں موجود ہوں وہاں کچھ سالم نہیں رہتا نہ آئین ،نہ قانون ،نہ اصول ،نہ ضابطے۔یہ کیڑے خاموشی سے ہر طرف موجود ہیں اور اپنا کام کیے جا رہے ہیں لیکن کسی دوست ملک نے ہمیں ایسا سپرے نہیں دیا جس سے ہمارے معاشرہ کو کھانے والے کیڑے ختم ہو سکیں اور ہم تو ازل سے ایسی غفلت کا شکار ہیں جس پر نظریہ ضرورت کی چھاپ ہے۔