مجھے آج بجٹ کے کسی پہلو پر لکھنا چاہئے تھا اور میں یہی کرر ہا ہوں۔ فوج نے پچھلے دنوں دو بڑے اعلانات کئے ہیں کہ ایک توو ہ بجٹ میں مزید مراعات نہیں لیں گے۔ دوسرے سازشی افسروںکے مقدمے کا فیصلہ آ گیا ہے۔ یہ دونوں فیصلے یاا علانات قابل ستائش ہیں ، مگر حکومت کو بجٹ سازی میں ان فیصلوں کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ ا س سے قبل حکومت واشگاف الفاظ میں دعوی کرتی رہی ہے کہ وہ اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔ یہ نظریہ یا دعوی ایک خام خیالی ہے۔ فوج صرف حکومت کی نہیں پوری قوم کی ہے اور پوری قوم اور فوج کو ایک صفحے پر ہونا چاہئے اور میرا خیال ہے کہ حقیقت یہی ہے مگر حکومتی پروپیگنڈے کو کون روکے۔ خاص طور پر آج جب بجٹ کا اعلان ہونے جا رہا ہے تو حکومتی وزیر یا مشیر کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ چونکہ فوج اتنی بڑی قربانی دے رہی ہے تو قوم بھی ایسی ہی قربانی خوشدلی سے دے۔ فوج نے جو فیصلہ کیا ہے۔ اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں اور عوام کے لئے جو فیصلے کرنے ہیں ان کی بنیاد قطعی مختلف ہے۔ عوام پہلے ہی مفلسی اور مہنگائی کا شکار ہیں۔ فوج کو تو وہ اتنا طاقتور بنا چکے ہیں کہ کوئی دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس کے لئے ستائیس اور اٹھائیس فروری کی تاریخیں شاہد ہیں۔ فوج کوا س قدر طاقتور بنانے میں بھٹو صاحب کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر نے فوج کو ڈیلوری سسٹم دیا۔وہ شمالی کوریا گئیں اور بابر اعوان کے بقول اپنے سرکاری جہاز میں ایک میزائل لے کر آئیں۔ یہ دعویٰ انہوںنے ایک نجی ٹی وی کے سربراہ ریاض شیخ صاحب کے گھر سینیئر اخبار نویسوں کی موجودگی میں کیا تھا۔ اس موقع پر سینیٹر ڈاکٹر سومرو بھی وہیں تھے۔ اور میںنے ان کے دعوے کی بنیاد پر کالم بھی لکھا جس کی کسی حلقے نے تردید نہیں کی ۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ محترمہ بے نظیر میزائل تو نہیں لائیں مگر میزائل ٹیکنالوجی کی سی ڈیز لائیں جس کے لئے انہوںنے ایک خاص قسم کا اوور کوٹ پہن رکھا تھا۔ محترمہ بے نظیر نے ایک بہت بڑا رسک لیا تھا۔خطرہ یہ تھا کہ امریکہ ا س جہاز کو راستے ہی میں بھسم کر دے گا۔ بہرحال میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ فوج الحمد للہ اس قدر طاقتور ضرور ہے کہ وہ بھارت ا ور دنیا بھر کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈال سکے۔اس لئے اگر وقتی طور پر وہ مالی مراعات لینے سے گریز کر رہی ہے تو براہ کرم حکومت اس کو بنیاد بنا کر عوام کو مراعات سے محروم نہ کرے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ، مجھے حکومت کی مخالفت نہیں کرنی مگر عوام کی حمائت سے بھی میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس لئے حکومت براہ کرم فوج کی آڑ نہ لے اور اگر فوج مناسب سمجھے تو یہ اعلان ضرور کر دے کہ اس کے فیصلے کے پیش نظر عام آدمی کو مہنگائی کی چکی میںنہ پیسا جائے۔
فوج کا دوسرا اعلان جو انہی دنوں سامنے آیا ہے ۔ وہ اعلیٰ فوجی افسروں کی سازش پر سخت فیصلہ ہے جس میں ایک ا علیٰ افسر کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور بعض کو عمر قید۔ اس فیصلے کی بھی تحسین کی گئی ہے مگر ا س فیصلے کو بھی ججوں کے خلاف ریفرنس کے لیے آڑکے طورپر استعمال کیا گیا ہے اور حکومت یہ ڈھونڈورا پیٹ رہی ہے کہ اگر فوج میں اعلیٰ افسروں کاکڑاا حتساب ہو سکتا ہے تو اعلیٰ عدلیہ کا کیوںنہیں، اصل میں حکومتی ریفرنس اور فوجی فیصلوں کی ٹائمنگ ایک ہو گئی ہے ۔
مجھے احتساب کے عمل سے اختلاف نہیں ہے۔ فوج میں ہمہ وقت احتساب ہو رہا ہے۔ خود فوجی ترجمان نے کہا کہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں چار سو فوجیوں کے خلاف تادیبی کاروائی کی گئی ہے۔ فوج نے جنرل کیانی کے دورمیں بھی بعض سینیئر ترین جرنیلوں کو جو ریٹائر ہو چکے تھے۔ ان کے عہدوں پر بغیر مراعات کے بحال کیا تاکہ ا ن کاا حتساب ہو سکے ۔ فوجی یونٹوں میں پٹھو لگنے کی سزائیں تو روزانہ جاری رہتی ہیں۔ ہمارے دوست میجر رشید وڑائچ خود بتایا کرتے تھے کہ انہوںنے اپنے سینیئر پر گن تان لی تھی جس پر ان کا احتساب ہوا اور انہیں باہر آنا پڑا۔ مشرقی پاکستان میں سرنڈر پر ایک کمیشن بنا، جس پر جسٹس حمود الرحمن کمیشن نے رپورٹ بھی مرتب کی ۔ یہ رپورٹ منظر عام پر آئی یا نہیں یاا س کی روشنی میں کسی کو سزادی گئی یا نہیں، میں اس بارے لاعلم ہوں۔ ایبٹ آباد پر امریکہ نے حملہ کیاا ورا سامہ کو شہید کرنے کادعوی کیا۔ اس پر بھی عدالتی کمیشن بنا جس کی رپورٹ نیب کے موجودہ چیئر مین جسٹس جاوید اقبال نے مرتب کی ، اس رپورٹ کا کیا بنا۔ اس سے بھی میں لاعلم ہوں۔ اسلم بیگ کے زمانے میں آئی جے آئی یعنی نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کو الیکشن لڑنے کے لئے پیسے دیئے گئے جسے مہران بنک اسکینڈل کہا جاتا ہے، اصغر خان نے اس پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں آیا۔ یہ کیس اگر فوج کو ڈیل کرنے دیا جاتا تو شاید فیصلہ آ چکا ہوتا۔ ہمارا سویلین نظام انصاف کچھوے کی رفتار سے چلتا ہے ۔ اس لئے دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتیں بنیں، ان کے فٹا فٹ فیصلے ہوئے مگر ان پر عمل در آمد کی فائلیں ہماری وزارت داخلہ کی میزوں پر پڑی رہ جاتی ہیں۔ اس سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور فوج کے لئے رکاوٹیں بڑھ جاتی ہیں۔
میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ فوج پوری قوم کی ہے۔ صرف حکومت کی نہیں ۔ اس لئے فوج کے کسی فیصلے ۔ اعلان یا اقدام کو آڑ بنا کر براہ کرم حکومت بجٹ میں عوام کو رگڑا نہ دے۔ہاں اگر حکومت یہ کہے کہ وہ فوج کو مزید بجٹ دینا چاہتی ہے اور فوج کی یہ پیش کش اس کے لئے قبول نہیں تو ہر پاکستانی پیٹ پر پتھر باندھنے کو تیار ہے کیونکہ اسے قومی خزانے کی پتلی حالت کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ اپنے وطن کے رکھوالوں کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن اگر حکومت نے فوج کو بھی مزید بجٹ نہیں دینا اور صرف وزرا کی فوج اورا فسر شاہی کے لشکر کی بھوک مٹانی ہے تو شاید عوام اس بوجھ کو برداشت نہ کر سکیں اور ہمارا معاشی بحران سنگین تر ہو جائے ،حکومت کے پاس معاشی ٹیم نہیں ، جو سال بھرسے تھی۔ وہ فارغ ہو گئی اور اب بیرون ملک سے امپورٹ کرنا پڑی ہے،۔ یہ لوگ غیر منتخب ہیں اور عوام کے سامنے جواب دہ نہیں،۔ یہ بھی ناکام ہو گئے تو جہاں سے آئے تھے۔ وہیں لوٹ جائیں گے اور ملک میں ایک یدھ کی کیفیت ہو گی۔یہ وقت انتہائی ہوش مندی کا متقاضی ہے اور امید یہی ہے کہ حکومت معاشی چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مہنگائی کا سونامی کھڑا نہیں کرے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024