غذا انسانی جسم کے لئے بہت اہم ہے ۔ انسان اچھی اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے جبکہ ایک صحت بخش زندگی کے حصول کے لئے بہترین غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔تندرست و توانا رہنے کے لیے ضروری ہے کہ غذائیت سے بھرپور خوراک کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنایا جائے ۔ بہتر جسمانی نشوونما کیلئے روزانہ کی بنیاد پر پانی ،پروٹین، کاربوہائیڈریٹس ،وٹامن اورمنرلز درکار ہوتے ہیں ۔
اچھی خوراک انسانی جسم کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ غذائی خوراک کا کردار صحت کی فروغ اور بیماری کی روک تھام میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔تاہم یہ بات نہایت قابل ِ غور ہے کہ محض خوراک کی مقدار نہیں بلکہ معیار پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان جو کہ ایک ترقی پزیرملک ہے اس میں ایک سروے کے مطابق 59 فیصد لوگ غیر معیاری کھانا کھانے پر مجبور ہیں ۔غیر معیاری کھانے کی کھپت نے پاکستان میں عام عوام کی صحت سے متعلق ایک خوفناک صورتحال پیدا کردی ہے جس کی ممکنہ وجہ حفظان صحت اور فوڈ سیفٹی کی اہمیت کے بارے میں شعور کی کمی بھی ہے ۔صحت کے مسائل میں دن بدن اضافے کی وجہ سے اموات کی شرح میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔چونکہ ہمار ے یہاںخوراک کی تیاری کے دوران فوڈ سیفٹی کے اطلاق کیلئے کوئی سخت قواعد موجود نہیں تاہم ریسٹورنٹس میں کھانے کے رجحان اور فاسٹ فوڈ نے صحت کے متعلق سنگین مسائل کو جنم دیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 2.2ملین افراد) زیادہ تر بچے( سالانہ ہرسال غذا اور پانی سے پیداہونے والی بیماریوں سے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ کیوںہم میں سے ہر پانچواںفرد ہیپاٹائٹس یا الرجی میں مبتلا نظر آتا ہے؟ کیوں ہمارے ہسپتال ہر وقت مریضوں سے بھرے رہتے ہیں؟ ہمارے پاس مختصر زندگی کی امید کیوں ہے؟ یہ سب غیر جانبدار اور مضر صحت کھاناکھانے کا نتیجہ ہے جو ہم معمول کی بنیاد پر کھاتے ہیں، یا تو اپنے منہ کے ذائقے کے لیے یا مجبوری کے تحت۔پاکستان میںحفظان صحت اور صفائی کے مناسب انتظامات کی عدم موجودگی سب ہی فوڈ پوائنٹس کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس طرح کے فوڈ پوائنٹس پر فراہم کیا جانے والا کھانا حفظان صحت اور صفائی کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتا ۔فوڈ پوائنٹس پر برتنوں کا غیر مناسب طریقہ سے دھلنا، پینے کے قابل پانی کی عدم فراہمی ، غیرمعیاری گوشت اور سبزیوں کا استعمال ،ناقص تیل کا غیر معمولی مقدار میں استعمال جیسی وجوہات زندگی اور صحت کے ممکنہ خطرات کو فروغ دیتی ہیں۔
اس سنگین صورتحال سے نپٹنے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ناقص غذا کی روک تھام کیلئے جامع قوانین مرتب کئے ہیں۔ خوراک سے متعلق قوانین بنانے کے لیے مختلف شعبہ جات کے ماہرین اور پی ایچ ڈی ڈاکٹرز سمیت کل 57ممبران کو سائنٹیفیک پینل میں شامل کیا گیا ۔ مزید برآں ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن (ر)محمد عثمان کی سر براہی میں خصوصی ریڈز اور انسپکشنز کی جاتی ہیں تاکہ ناقص خوراک فروخت کر کے انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ انسپکشنز کے دوران ملاوٹ مافیا کی نشاندہی پر قوانین کی روشنی میں ان کے خلاف بھر پور ایکشن لیا جاتا ہے۔ عوام کی صحت دائو پر لگانے والوں کو اس ضمن میں کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دی جا تی اور بلا تفریق کارروائی عمل میں لائی جا تی ہے۔ معمولی نقائص پر اصلاحی بنیادوں پر فوڈ مینوفیکچررز کی اصلاح بھی کی جا تی ہے۔علاوہ ازیں فوڈ انڈسٹری کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے کیلئے فوڈ مینو فیکچررز اور فوڈ ورکرز کو فوڈ سیفٹی سے متعلق تربیت دی جا تی ہے۔پی ایف اے کا ٹریننگ سیکشن بلخصوص فوڈ انڈسٹری میں موجود تمام اشخاص کو جدید معلومات سے ہمکنار کرنے اور محفوظ خوراک کی تیاری کے اصول متعارف کروانے کا کا م کرتا ہے۔ ان سب اقدامات کے علاوہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے خوراک اور اشیائے خورونوش کے شعبے سے منسلک افراد کی صحت کا جائزہ لینے کیلئے فوڈ اور میڈیکل سکریننگ لیبارٹریز قائم کر رکھی ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی اور اس سے دیگر ڈیپارٹمنٹ ناقص کھانے کی فراہمی کو روکنے اور حفظان صحت کے مطابق خوراک مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ صحت عامہ کی بہتری اور محفوظ خوراک کے کلچر کے فروغ کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے چند اہم اقدامات کیے ہیں جن میں انرجی ڈرنکس پر پابندی سر فہرست ہے۔ بارہ سال سے کم عمر افراد اور حاملہ خواتین کو انرجی ڈرنکس کی فروخت کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور لیبل پر وارننگ لکھنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ۔ کھلی اشیاء خور و نوش پر مکمل پابندی، بناسپتی گھی کے مضر اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے 0 202 میں بناسپتی گھی کی خرید و فروخت پر مکمل طور پر پابندی لگا دی جائے گی ۔بناسپتی گھی میںموجودسلفر، ٹرانس فیٹی ایسڈاور نکل دھات ایسے اجزاء موٹاپا، ذیابیطس، ذہنی بیماریوں، امراضِ قلب اور کینسر جیسے مہلک بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔اس کے علاوہ کھلے دودھ، ویجیٹیبل فیٹ سے بننے والے ٹی وائٹنرز سے دودھ بنا کر بیچنے کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی گئی۔ملکی سطح کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ماڈل کو بھر پور پذیرائی ملی ہے۔۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024